واشنگٹن —
مصر ی افواج کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر ملک میں جاری سیاسی بحران پر قابو نہ پایا گیا تو یہ بحران ریاست کے زوال کا سبب بن سکتا ہے۔
جنرل عبدالفتاح السیسی نے یہ انتباہ منگل کو ایک فوجی ادارے میں زیرِ تربیت نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔
مصری فوج کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان کے مطابق اپنے خطاب میں جنرل السیسی کا کہنا تھا کہ حالیہ فسادات سے متاثر ہونے والے نہرِ سوئز کے کنارے واقع شہروں میں فوج کی تعیناتی کا ایک بنیادی مقصد اس اہم آبی گزرگاہ کا تحفظ ہے جس پر مصر کی معیشت اور بین الاقوامی تجارت کا دارومدار ہے۔
السیسی کے بیان سے ایک روز قبل بھی مصر کے مختلف شہروں میں مظاہرین نے ایمرجنسی اور کرفیو کے نفاذ کے باوجود مسلسل چوتھے روز بھی سڑکوں پر آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔
تاہم منگل کو ملک بھر میں صورتِ حال نسبتاً پر امن رہی اور مظاہرین اور پولیس کے درمیان چند مقامات پر ہونے والی ہلکی پھلکی جھڑپوں کے علاوہ کسی بڑے پرتشدد واقعے کی اطلاع نہیں ملی ہے۔
حالیہ فسادات کا سلسلہ مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کے طویل آمرانہ اقتدار کے خلاف چلنے والی کامیاب احتجاجی تحریک کی دوسری سال گرہ کے موقع پر شروع ہوا تھا جو گزشتہ ہفتے منائی گئی تھی۔
ابتدائی احتجاج میں اس وقت مزید شدت آگئی تھی جب دارالحکومت قاہرہ کی ایک عدالت نے ان 21 افراد کو سزائے موت سنائی تھی جو گزشتہ برس فٹ بال کے ایک میچ میں ہونے والی ہلاکت خیز ہنگامہ آرائی میں ملوث تھے۔
سزا پانے والے افراد میں سے بیشتر نہرِ سوئز کے کنارے واقع شہر پورٹ سعید کے رہائشی ہیں جس کے باعث عدالتی فیصلے کے خلاف سب سے شدید ردِ عمل بھی اسی شہر میں دیکھنے میں آیا ہے۔
مصر کے مختلف شہروں میں ہونے والے حالیہ پرتشدد احتجاج، جلائو گھیرائو اور مظاہرین اور پولیس کے مابین جھڑپوں میں اب تک 52 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جس کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے مصر کے سیاسی مستقبل اور استحکام کے بارے میں خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں۔
موجودہ حالات کے تناظر میں مصر ی افواج کے سربراہ کے اس انتباہ کو اس لیے بھی اہمیت دی جارہی ہے کہ 1950ء کی دہائی میں مصر کی آزادی کے بعد سے فوج کی ملک پر حکومت رہی ہے جس کا خاتمہ دو سال قبل حسنی مبارک کی اقتدار سے رخصتی کے بعد ممکن ہوا تھا اورسات ماہ قبل جدید مصر کے پہلے سویلین صدر محمد مرسی نے جمہوری طریقے سے منتخب ہونے کے بعد اقتدار سنبھالا تھا۔
منگل کو اپنے خطاب میں مصری فوج کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ ریاستی امور چلانے کے انداز پر مختلف سیاسی قوتوں کے درمیان جاری محاذ آرائی مصر کو ناکام ریاست بناسکتی ہے۔
جنرل السیسی کا کہنا تھا کہ مصر کو درپیش معاشی، سیاسی اور سماجی چیلنجز ملک کی سلامتی اور ریاست کے اتحاد کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن چکے ہیں۔
خیال رہے کہ صدر مرسی نے گزشتہ برس عبدالفتاح السیسی کو مصری افواج کا نیا سربراہ مقرر کیا تھا جب کہ وہ حکومت میں وزیرِ دفاع کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔
حالیہ فسادات سے وہ تقسیم ابھر کر سامنے آئی ہے جس سے مصر کا معاشرہ انقلاب کے بعد سے دوچار ہے۔ ملک کی منظم ترین اسلامی جماعت 'اخوان المسلمون' اور اسلام پسند حلقے صدر مرسی کی حمایت کر رہے ہیں جنہیں سیکولر اور لبرل حزبِ اختلاف کی کڑی تنقید اور مخالفت کا سامنا ہے۔
جنرل عبدالفتاح السیسی نے یہ انتباہ منگل کو ایک فوجی ادارے میں زیرِ تربیت نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔
مصری فوج کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان کے مطابق اپنے خطاب میں جنرل السیسی کا کہنا تھا کہ حالیہ فسادات سے متاثر ہونے والے نہرِ سوئز کے کنارے واقع شہروں میں فوج کی تعیناتی کا ایک بنیادی مقصد اس اہم آبی گزرگاہ کا تحفظ ہے جس پر مصر کی معیشت اور بین الاقوامی تجارت کا دارومدار ہے۔
السیسی کے بیان سے ایک روز قبل بھی مصر کے مختلف شہروں میں مظاہرین نے ایمرجنسی اور کرفیو کے نفاذ کے باوجود مسلسل چوتھے روز بھی سڑکوں پر آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔
تاہم منگل کو ملک بھر میں صورتِ حال نسبتاً پر امن رہی اور مظاہرین اور پولیس کے درمیان چند مقامات پر ہونے والی ہلکی پھلکی جھڑپوں کے علاوہ کسی بڑے پرتشدد واقعے کی اطلاع نہیں ملی ہے۔
حالیہ فسادات کا سلسلہ مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کے طویل آمرانہ اقتدار کے خلاف چلنے والی کامیاب احتجاجی تحریک کی دوسری سال گرہ کے موقع پر شروع ہوا تھا جو گزشتہ ہفتے منائی گئی تھی۔
ابتدائی احتجاج میں اس وقت مزید شدت آگئی تھی جب دارالحکومت قاہرہ کی ایک عدالت نے ان 21 افراد کو سزائے موت سنائی تھی جو گزشتہ برس فٹ بال کے ایک میچ میں ہونے والی ہلاکت خیز ہنگامہ آرائی میں ملوث تھے۔
سزا پانے والے افراد میں سے بیشتر نہرِ سوئز کے کنارے واقع شہر پورٹ سعید کے رہائشی ہیں جس کے باعث عدالتی فیصلے کے خلاف سب سے شدید ردِ عمل بھی اسی شہر میں دیکھنے میں آیا ہے۔
مصر کے مختلف شہروں میں ہونے والے حالیہ پرتشدد احتجاج، جلائو گھیرائو اور مظاہرین اور پولیس کے مابین جھڑپوں میں اب تک 52 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جس کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے مصر کے سیاسی مستقبل اور استحکام کے بارے میں خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں۔
موجودہ حالات کے تناظر میں مصر ی افواج کے سربراہ کے اس انتباہ کو اس لیے بھی اہمیت دی جارہی ہے کہ 1950ء کی دہائی میں مصر کی آزادی کے بعد سے فوج کی ملک پر حکومت رہی ہے جس کا خاتمہ دو سال قبل حسنی مبارک کی اقتدار سے رخصتی کے بعد ممکن ہوا تھا اورسات ماہ قبل جدید مصر کے پہلے سویلین صدر محمد مرسی نے جمہوری طریقے سے منتخب ہونے کے بعد اقتدار سنبھالا تھا۔
منگل کو اپنے خطاب میں مصری فوج کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ ریاستی امور چلانے کے انداز پر مختلف سیاسی قوتوں کے درمیان جاری محاذ آرائی مصر کو ناکام ریاست بناسکتی ہے۔
جنرل السیسی کا کہنا تھا کہ مصر کو درپیش معاشی، سیاسی اور سماجی چیلنجز ملک کی سلامتی اور ریاست کے اتحاد کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن چکے ہیں۔
خیال رہے کہ صدر مرسی نے گزشتہ برس عبدالفتاح السیسی کو مصری افواج کا نیا سربراہ مقرر کیا تھا جب کہ وہ حکومت میں وزیرِ دفاع کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔
حالیہ فسادات سے وہ تقسیم ابھر کر سامنے آئی ہے جس سے مصر کا معاشرہ انقلاب کے بعد سے دوچار ہے۔ ملک کی منظم ترین اسلامی جماعت 'اخوان المسلمون' اور اسلام پسند حلقے صدر مرسی کی حمایت کر رہے ہیں جنہیں سیکولر اور لبرل حزبِ اختلاف کی کڑی تنقید اور مخالفت کا سامنا ہے۔