واشنگٹن —
مصر کے صدر محمد مرسی کی جانب سے ملک کے تین صوبوں میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے باوجود دارالحکومت قاہرہ سمیت ملک کے مختلف حصوں میں پیر کو بھی مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔
فسادات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہروں پورٹ سعید، اسماعیلیہ اور سوئز میں ایمرجنسی اورکرفیو کے نفاذ کے باوجود بعض علاقوں میں مظاہرین پیر کو بھی سڑکوں پر آئے اور اپنا احتجاج جاری رکھا۔
دریں اثنا حزبِ اختلاف کے کئی رہنمائوں نے ملک کے اسلام پسند صدر محمد مرسی کی جانب سے کشیدگی کے خاتمے کے لیے قومی مکالمے کی دعوت مسترد کرتے ہوئے اس کا حصہ نہ بننے کا اعلان کیا ہے۔
حزبِ مخالف کی 'دستور پارٹی' کے سربراہ محمد البرادعی نے پیر کو قاہرہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حزبِ اختلاف کی قوتیں مذاکرات پر آمادہ ہیں لیکن وہ ایسے مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنیں گی جس سے، ان کے بقول، کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
حالیہ فسادات کا سلسلہ مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کے طویل آمرانہ اقتدار کے خلاف چلنے والی کامیاب احتجاجی تحریک کی دوسری سال گرہ کے موقع پر شروع ہوا تھا جو گزشتہ ہفتے منائی گئی تھی۔
ابتدائی احتجاج میں اس وقت مزید شدت آگئی تھی جب دارالحکومت قاہرہ کی ایک عدالت نے ان 21 افراد کو سزائے موت سنائی تھی جو گزشتہ برس فٹ بال کے ایک میچ میں ہونے والی ہلاکت خیز ہنگامہ آرائی میں ملوث تھے۔
سزا پانے والے افراد میں سے بیشتر پورٹ سعید کے رہائشی ہیں جس کے باعث عدالتی فیصلے کے خلاف سب سے شدید ردِ عمل بھی اسی شہر میں دیکھنے میں آیا ہے۔
حالیہ فسادات سے وہ تقسیم ابھر کر سامنے آئی ہے جس سے مصر کا معاشرہ انقلاب کے بعد سے دوچار ہے۔ ملک کی منظم ترین اسلامی جماعت 'اخوان المسلمون' اور اسلام پسند حلقے صدر مرسی کی حمایت کر رہے ہیں جنہیں سیکولر اور لبرل حزبِ اختلاف کی کڑی تنقید اور مخالفت کا سامنا ہے۔
سڑکوں پر آنے والے مظاہرین کی اکثریت پولیس سے نالاں ہے اور پولیس اہلکاروں پر طاقت کے بے جا استعمال اور احتساب سے بالاتر ہونے کا الزام عائد کرتی ہے۔
ملک میں پرتشدد مظاہروں کے پیشِ نظر پیر کو مصر کی کابینہ نے ایک مسودہ قانون کی بھی منظوری دی ہے جس کے تحت صدر مرسی کو امن و امان کے قیام میں پولیس کی اعانت کے لیے فوج طلب کرنے اور عام شہریوں کو گرفتار کرنے کی اجازت دینے کا اختیار حاصل ہوجائے گا۔
مصر میں گزشتہ جمعرات سے شروع ہونے والے ہنگاموں میں اب تک 50 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں سے صرف 37 افراد پورٹ سعید میں مارے گئے ہیں۔
فسادات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہروں پورٹ سعید، اسماعیلیہ اور سوئز میں ایمرجنسی اورکرفیو کے نفاذ کے باوجود بعض علاقوں میں مظاہرین پیر کو بھی سڑکوں پر آئے اور اپنا احتجاج جاری رکھا۔
دریں اثنا حزبِ اختلاف کے کئی رہنمائوں نے ملک کے اسلام پسند صدر محمد مرسی کی جانب سے کشیدگی کے خاتمے کے لیے قومی مکالمے کی دعوت مسترد کرتے ہوئے اس کا حصہ نہ بننے کا اعلان کیا ہے۔
حزبِ مخالف کی 'دستور پارٹی' کے سربراہ محمد البرادعی نے پیر کو قاہرہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حزبِ اختلاف کی قوتیں مذاکرات پر آمادہ ہیں لیکن وہ ایسے مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنیں گی جس سے، ان کے بقول، کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
حالیہ فسادات کا سلسلہ مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کے طویل آمرانہ اقتدار کے خلاف چلنے والی کامیاب احتجاجی تحریک کی دوسری سال گرہ کے موقع پر شروع ہوا تھا جو گزشتہ ہفتے منائی گئی تھی۔
ابتدائی احتجاج میں اس وقت مزید شدت آگئی تھی جب دارالحکومت قاہرہ کی ایک عدالت نے ان 21 افراد کو سزائے موت سنائی تھی جو گزشتہ برس فٹ بال کے ایک میچ میں ہونے والی ہلاکت خیز ہنگامہ آرائی میں ملوث تھے۔
سزا پانے والے افراد میں سے بیشتر پورٹ سعید کے رہائشی ہیں جس کے باعث عدالتی فیصلے کے خلاف سب سے شدید ردِ عمل بھی اسی شہر میں دیکھنے میں آیا ہے۔
حالیہ فسادات سے وہ تقسیم ابھر کر سامنے آئی ہے جس سے مصر کا معاشرہ انقلاب کے بعد سے دوچار ہے۔ ملک کی منظم ترین اسلامی جماعت 'اخوان المسلمون' اور اسلام پسند حلقے صدر مرسی کی حمایت کر رہے ہیں جنہیں سیکولر اور لبرل حزبِ اختلاف کی کڑی تنقید اور مخالفت کا سامنا ہے۔
سڑکوں پر آنے والے مظاہرین کی اکثریت پولیس سے نالاں ہے اور پولیس اہلکاروں پر طاقت کے بے جا استعمال اور احتساب سے بالاتر ہونے کا الزام عائد کرتی ہے۔
ملک میں پرتشدد مظاہروں کے پیشِ نظر پیر کو مصر کی کابینہ نے ایک مسودہ قانون کی بھی منظوری دی ہے جس کے تحت صدر مرسی کو امن و امان کے قیام میں پولیس کی اعانت کے لیے فوج طلب کرنے اور عام شہریوں کو گرفتار کرنے کی اجازت دینے کا اختیار حاصل ہوجائے گا۔
مصر میں گزشتہ جمعرات سے شروع ہونے والے ہنگاموں میں اب تک 50 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں سے صرف 37 افراد پورٹ سعید میں مارے گئے ہیں۔