واشنگٹن —
مصر کےلبرل اپوزیشن اتحاد کا کہنا ہے کہ اسلام پرستوں کی حمایت سے بنائے گئے آئین کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی، باوجود یہ کہ دو مرحلوں پر محیط ریفرنڈم کے ذریعے بظاہر اِس کی منظوری دی جاچکی ہے۔
اتوار کے روز قاہرہ میں ہونے والی ایک اخباری کانفرنس میں ’نیشنل سالویشن فرنٹ‘ نے کہا کہ اُس نے انتخابی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ ریفرنڈم میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی چھان بین کی جائے۔ رائے دہی کا عمل ہفتے کو ختم ہوا جِس میں مصر کے 27صوبوں میں سے 17میں ووٹنگ ہوئی۔باقی صوبوں میں ووٹنگ کا آغاز 15 دسمبر کو ہوا۔
صدر محمد مرسی کی اخوان المسلمین کا کہنا ہےکہ غیر سرکاری نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ ووٹنگ کے دو مرحلوٕ ں کے دوران 64 فی صد رائے دہندگان نے آئین کی منظوری دے دی ہے، جب کہ ہفتے کے روز کی ووٹنگ میں ’اثبات‘ کے حق میں اِس سے بھی کہیں زیادہ یعنی 71فی صد ووٹ پڑے۔
انتخابی کمیشن پیر کے روز تک سرکاری نتائج کا اعلان کرسکتا ہے۔
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم کے عمل پر عدالتی نظرداری نہ ہونے کےباعث اسلام پرستوں کی طرف سے دھاندلی اور ووٹروں کو دباؤ کا نشانہ بنایا گیا۔ صدر مرسی کی طرف سے قانون سے ماورا فیصلوں پر مبنی حالیہ اقدامات کے نتیجے میں متعدد ججوں نے احتجاج کے طور پر ووٹنگ کے عمل کا بائیکاٹ کیا۔
سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ آئین میں عوامی رائے دہی کا عنصر موجود نہیں ہے، کیونکہ محض ایک تہائی ووٹروں نے انتخابی عمل میں حصہ لیا۔
اتوار کے روز قاہرہ میں ہونے والی ایک اخباری کانفرنس میں ’نیشنل سالویشن فرنٹ‘ نے کہا کہ اُس نے انتخابی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ ریفرنڈم میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی چھان بین کی جائے۔ رائے دہی کا عمل ہفتے کو ختم ہوا جِس میں مصر کے 27صوبوں میں سے 17میں ووٹنگ ہوئی۔باقی صوبوں میں ووٹنگ کا آغاز 15 دسمبر کو ہوا۔
صدر محمد مرسی کی اخوان المسلمین کا کہنا ہےکہ غیر سرکاری نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ ووٹنگ کے دو مرحلوٕ ں کے دوران 64 فی صد رائے دہندگان نے آئین کی منظوری دے دی ہے، جب کہ ہفتے کے روز کی ووٹنگ میں ’اثبات‘ کے حق میں اِس سے بھی کہیں زیادہ یعنی 71فی صد ووٹ پڑے۔
انتخابی کمیشن پیر کے روز تک سرکاری نتائج کا اعلان کرسکتا ہے۔
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم کے عمل پر عدالتی نظرداری نہ ہونے کےباعث اسلام پرستوں کی طرف سے دھاندلی اور ووٹروں کو دباؤ کا نشانہ بنایا گیا۔ صدر مرسی کی طرف سے قانون سے ماورا فیصلوں پر مبنی حالیہ اقدامات کے نتیجے میں متعدد ججوں نے احتجاج کے طور پر ووٹنگ کے عمل کا بائیکاٹ کیا۔
سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ آئین میں عوامی رائے دہی کا عنصر موجود نہیں ہے، کیونکہ محض ایک تہائی ووٹروں نے انتخابی عمل میں حصہ لیا۔