شہر کراچی میں چار روزہ آٹھویں عالمی اردو کانفرنس جمعے کو اختتام پذیر ہوگئی۔ اختتامی اجلاس سے سیکرٹری آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے خطاب کیا جس میں بیرون ملک سے آئی ہوئی اردو کی نامور شخصیات نے شرکت کی۔
اُنھوں نے کہا کہ مسلسل آٹھویں عالمی اردو کانفرنس کا کراچی میں منعقد ہونا یہ واضح کرتا ہے کہ ’اب یہ ایک روایت بن چکی ہے‘۔
بقول اُن کے، ’ہم اس روایت کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے آرٹس کونسل کی سرگرمیوں کو کراچی شہر کا آئینہ بنائیں گے۔ کراچی شہر کے باذوق دانشوروں اور پاکستان سمیت بیرونی ملکوں سے دانشوروں کی آمد نے ہمارے حوصلے بڑھائے ہیں‘۔
اختتامی اجلاس کے دوران، چار روز تک جاری رہنے والی اس کانفرنس سے متعلق کئی قراردادیں بھی منظور ہوئیں جن میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کیے جانے، اور اس سلسلے میں متعلقہ اداروں کو فعال بنانے کے ساتھ ساتھ جوابدہ بھی بنائے جانے پر زور دیا گیا۔
ایک قرارداد میں ’پاکستان کی تمام قومی زبانوں کو بلا تخصیص قبولیت اور ترقی کے مواقع فراہم کرنے پر زور دیا گیا‘۔
ایک قرارداد میں اردو کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق اس کی اہمیت اور فروغ کیلئے مزید اقدامات پر بھی زور دیا گیا۔
دوسری جانب، اختتامی اجلاس میں اردو زبان کی نامور شخصیات نے مستقبل کے حوالے سے اردو کی اہمیت اور اس کے مزید فروغ اور بہتری کے لئے مختلف تجاویز بھی پیش کیں۔
کانفرنس کے آخری روز کا پہلا اجلاس ’افسانوی ادب‘ کے عنوان سے منعقد ہوا، جس میں جدید دور میں فکری و تخلیقی، معاصر اردو افسانہ، افسانہ و نسائی شعور سمیت اردو افسانوں کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی گئی۔
آخری روز کا اگلا اجلاس ’بچوں کا ادب‘ کے بارے میں مختص تھا، جس میں بچوں کی تدریسی کتابوں سمیت غیر تدریسی کتابوں، کہانیوں، ناولوں اور مختلف نظموں پر گفتگو کی گئی۔
اس عنوان پر بچوں کی کتابوں کے مصنفین نے اس بات پر زور دیا کہ والدین بچوں کو کتب بینی کی جانب مائل کرنے کیلئے چھوٹی عمر سے ہی بچوں کو کتابیں خرید کر دیں۔ ناصرف یہ بلکہ اردو زبان میں بچوں کی کتابیں ہر اسکول کی لائبریری میں لازمی شامل ہونی چاہئیں۔
ایک اور اجلاس ذرائع ابلاغ اور زبان کے نام سے منعقد ہوا، جس میں پاکستانی ذرائع ابلاغ سے منسلک شخصیات نے شرکت کی اور موجودہ ٹی وی چینلز پر استعمال ہونےوالی اردو زبان کی بدلتی روایات اور غلط تلفظ اور براڈکاسٹر کی الفاظ کی غیر درست ادائیگی سمیت غیر معیاری اردو کے استعمال کی نشاندہی کی گئی۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ میڈیا ہاوسز اور صحافتی ادارے اب صرف کاروباری ادارے بن گئے ہیں، جن میں زبان اور گفتگو کی اہمیت کو ایک جانب رکھ کر ان اداروں کے سربراہ مبینہ طور پر صرف اشتہارات کے ذریعے پیسہ کمانے کا سوچتے ہیں۔ بقول ماہرین، یوں لگتا ہے کہ اردو زبان کی خرابی اور عام آدمی پر پڑنےوالے اس کے منفی اثرات سے اُن (مالکان) کو کوئی غرض نہیں۔
عالمی کانفرنس کے آخری روز ’ایک شام انور مقصود کے نام‘ سے ایک نشست رکھی گئی، جس میں انور مقصود نے ’میر تقی میر سے باتیں‘ کے عنوان سے اپنا کلام پڑھا۔
یہ انور مقصود کی تحریر کردہ تخیلاتی ملاقات کی ایک کہانی تھی جسمیں انور مقصود نے میر تقی میر کے کردار کو پیش کیا اور ساتھ ہی ان کے اشعار اور علامہ اقبال اور مرزا اسد اللہ خاں غالب سے متعلق ان کے شاعری کے موازنے کو پیش کیا، جس سے آڈیٹوریم میں موجود حاضرین نے لطف اندوز کیا۔
کانفرنس میں جہاں اردو زبان کے مختلف شعبوں میں نمایاں شخصیات اور ملکی و غیر ملکی مندوبین نے شرکت کی، وہیں اس کانفرنس کے چاروں روز شہریوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی؛ جس میں بڑی تعداد نوجوانوں کی بھی تھی؛ جو اردو زبان کے ماضی و حال کے بارے میں جاننے اور اپنے علم میں اضافے کیلئے چاروں روز شریک رہے۔
چار روز تک جاری رہنےوالے اردو زبان سے متعلق اہم سیشنز جس میں اہم گفتگو سامنے آئی وہیں بین الاقوامی سطح پر اردو زبان کی ترویج اور فروغ کیلئے اہم پہلو سامنے آئے، جبکہ دیگر مصنفین کی کتابوں کی رونمائی بھی کی گئی۔
آرٹس کونسل آف پاکستان ایک غیر سرکاری ادارہ ہے، جو ہر سال اردو کانفرنس کا اہتمام کرتا ہے۔