رسائی کے لنکس

امریکہ: ڈاک کے ذریعے ووٹنگ، کیا دھاندلی کا امکان ہے؟


اسٹکرز۔
اسٹکرز۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ڈاک کے ذریعے ووٹنگ میں دھاندلی کا احتمال ہو سکتا ہے۔ اس ہفتے جب ان سے سوال کیا گیا کہ آیا وہ نومبر کے انتخابات تسلیم کریں گے، تو صدر نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دوسری جانب، اگر انتخابات میں دھاندلی کا کوئی الزام لگتا ہے تو اسے حل کرنے میں کئی ہفتے، یہاں تک کہ کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔

کرونا وائرس کی وبا کے باعث ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے اور غیر حاضر ووٹوں کی گنتی میں دھاندلی کے الزام لگنے کی صورت میں تصفیے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔ اس صورت میں اسی دن نتائج سامنے نہیں آ سکتے کہ ٹرمپ یا ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن میں سے جیت کس کی ہوئی۔

رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ فی الوقت سابق نائب صدر جو بائیڈن کو ٹرمپ پر سبقت حاصل ہے۔

مندرجہ ذیل چند الجھے معاملات ہیں جن سے سابقہ پڑ سکتا ہے:

میل اِن بیلٹس

ڈاک کے ذریعے بھیجے گئے بیلٹ پیپرز گنتی کے عمل میں تاخیر کا باعث بن سکتے ہیں۔

کئی ریاستوں میں الیکشن کے دن کے بعد بیلٹس موصول ہو سکتے ہیں؛ اور اہل کار انھیں اپنے ہاتھ سے کھول کر دستخطوں کی تصدیق کریں گے۔ اس سال چند پرائمری انتخابات کے دوران، جن میں وبا کے سبب ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کی اجازت دی گئی تھی، انتخابی دن کے بعد ہفتوں تک معاملات تصفیہ طلب رہے۔

ڈیموکریٹس کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ تاخیر سے دھیان بٹانے کے لیے دھاندلی کا الزام لگایا جا سکتا ہے۔

بائیڈن کی انتخابی مہم سے وابستہ ایک شخص نے کہا کہ ہمارے ساتھیوں کے سامنے وہ منظر نامہ ہے جس میں ٹرمپ اپنی کامیابی کا دعویٰ کریں، جس کی بنیاد تین نومبر کے انتخاب میں بہ نفس نفیس رائے دہی کی گنتی کے عمل پر ہو۔ تاہم، بعد میں کثیر آبادی والے کسی شہری علاقے سے ڈاک میں موصول ہونے والے ووٹوں کی گنتی کی جائے، جس کے بعد ان کی سبقت باقی نہ رہے؛ جس پر صدر کہیں کہ ان کا انتخاب چوری کیا جا رہا ہے؟

عدالتیں

ہر ریاست میں ڈاک کے ذریعے ووٹوں اور غیر حاضر ووٹروں کے دستخط پرکھنے، پوسٹ مارک کی نشانیاں جانچنے، درخواستوں کی حتمی تاریخوں کی تصدیق کے عمل سے متعلق مختلف نوعیت کے قوانین نافذ ہیں۔ اس لیے، کونسا بیلٹ جائز اور کونسا ناجائز ہے؟ اس بارے میں ڈیموکریٹ یا ریپبلیکن میں سے کوئی بھی اٹھ کر اعتراض جمع کرا سکتا ہے۔

اس سال صدارتی نامزدگی کے عمل کے دوران بھی ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کی اجازت دی گئی تھی جس میں بہت بڑے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا، چونکہ بیلٹس بر وقت وصول نہیں ہوئے، کیونکہ انتخابی عملے اور پوسٹ آفیسز کو بے تحاشہ بیلٹ پیپر موصول ہونے کا معاملہ درپیش تھا۔

وہ ووٹر جو اپنی ریاست کے ضوابط پر عمل پیرا ہیں، لیکن بغیر کسی وجہ کے انھیں بروقت بیلٹس نہیں پہنچ پاتے، انھیں انتخاب سے خارج کیا جا سکتا ہے۔ اس معاملے پر قانونی دعوے دائر ہو سکتے ہیں، ان ریاستوں میں جہاں ووٹ کے نتائج ایک دوسرے کے قریب قریب ہوں اور کانٹے کا مقابلہ جاری ہو۔

پھر ریاستوں میں دائر کردہ اعتراضات آخر کار امریکی عدالت عظمیٰ کے پاس آتے ہیں، جیسا کہ 2000 میں ہوا جب فلوریڈا میں ریپبلیکن صدارتی امیدوار جارج ڈبلیو بش کو ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار الگور کے مقابلے میں محض 537 ووٹوں سے برتری ملی، جب قدامت پسند سوچ کی حامل ایک عدالت نے ووٹوں کی گنتی کا عمل روک دیا۔

الیکٹورل کالج

چند ماہرین کا کہنا ہے کہ شاید قانونی چارہ جوئی سے زیادہ پریشان کن منظرنامہ وہ امکان ہو گا جس میں الیکٹورل کالج کا سوال اٹھایا جائے۔

دراصل امریکی صدر پاپولر ووٹ کی اکثریت کی بنیاد پر منتخب نہیں ہوتا۔ آئین کی رو سے، 538 الیکٹرز، جنھیں الیکٹورل کالج کہا جاتا ہے، وہی فاتح کا تعین کرتے ہیں۔

عملی طور پر وہ امیدوار جو ہر ریاست کا پاپولر ووٹ جیتتا ہے، ریاست کے الیکٹرز اسی کے پلڑے میں جاتے ہیں؛ جس کا تعین آبادی کے تناسب کے حساب سے کیا جاتا ہے۔

ہر ریاست کا گورنر الیکٹرز کے ووٹ کی تصدیق کرتا ہے؛ جو مرحلہ اس سال 14 دسمبر کو ہو گا، جسے منظوری کے لیے کانگریس کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

XS
SM
MD
LG