پاکستان کے شہروں میں ان دنوں آپ کو بہت سے ایسے منظر دکھائی دیں گے جنہیں دیکھ کر گماں ہوتا ہے کہ شاید پاکستان 21 صدی سے 18ویں صدی کے الٹے سفر پر گامزن ہے۔ یہ منظر کس طرح کے ہیں ۔۔ ملاخطہ کیجئے:
پہلا منظر
مین یونیورسٹی روڈ پر ’پی آئی اے پلانیٹوریم‘ سے کچھ آگے ۔۔سوک سینٹر کی جانب جاتے ہوئے ۔۔۔دائیں ہاتھ پر واقع پاکستان اسٹیٹ آئل کا پیٹرول پمپ۔ یہاں سی این جی (یعنی کمپریسڈ نیچرل گیس) بھی ملتی ہے۔ اس وقت، صبح کے سات بج رہے ہیں۔ بلا کی سردی ہے۔ ہاتھ ٹھٹھر رہے ہیں۔ جسم کانپ رہے ہیں۔
اگرچہ، وہ اتوار کا دن تھا۔۔ لوگ دیر سے سو کر اٹھنے کے عادی ہیں۔ لیکن، چونکہ ایک روز پہلے ہی یہ اعلان ہوچکا تھا کہ سی این جی اگلے 48گھنٹوں کے لئے بند ہوجائے گی۔ لہذا، کار، رکشا، ٹیکسی، بسوں اور ویگن ڈرائیورز ساری رات میلوں دور تک پھیلی لائنوں میں لگ کر سی این جی بھروانے کی کوششوں میں ہیں۔
طویل انتظار۔ ٹھنڈ۔ بے آرامی اور بے وقت کی کوفت نے لوگوں کے لہجوں میں جھنجلاہٹ پیدا کر دی ہے۔ ہر شخص کی کوشش ہے کہ صبح کے آٹھ بجے سے پہلے پہلے گیس بھروا لے، تاکہ اس کا پہیہ چلتا رہے۔ ایسے میں کوئی دوسرا گاڑی آگے بڑھانے میں رتی برابر بھی دیر کردے تو پیچھے والا چلانے لگتا ہے۔ گیس بھرنے والا عملہ تھوڑی سی بھی دیر لگائے تو بھی کئی لوگ ایک ساتھ اس پر چڑھ دوڑتے ہیں۔
زیر نظر رپورٹ میں آنکھوں دیکھی لکھنے اور’ دل‘ سے محسوس کرنے کی غرض سے ’وی او اے‘ کا نمائندہ بھی اس لائن میں اپنی گاڑی لیکر کھڑا ہوا تھا۔ ایک شور، ایک ہنگامہ ہوتا ہے، گاڑیوں کے ہارن، ٹریفک کا شور اور لوگوں کا چیخنا چلانا۔۔۔کچھ نوجوانوں کا جذبات سے بے قابو ہوجانا ۔۔۔دھمکی آمیز لہجے۔۔۔غصے سے بھری تکراریں۔۔۔یہ سب کچھ اب کسی ایک دن کا قصہ نہیں رہا۔ ہفتے میں تین یا چار دن سی این جی بند ہوتی ہے اور ہر بار گیس بند ہونے سے پہلے اور کھلنے کے بعد تک یہی سب کچھ ہوتا ہے۔
گیس کے حصول کی غرض سے لائن میں لگے ایک سی این جی گیس پر چلنے والے آٹو رکشا کے مالک دل فراز خان کا کہنا تھا، ”بہت برا وقت آگیا ہے۔۔۔بچوں کا پیٹ پالنا مشکل ہوگیا۔۔ سو، دوسو روپے کی گیس بھروانے کے لئے چار گھنٹوں سے لائن میں کھڑا ہوں۔۔ سلینڈر چھوٹا ہے زیادہ گیس نہیں آتی۔۔۔پھر کمائی بھی اتنی نہیں۔۔جب تک گیس چلے گی، چلے گی پھر بند کرکے گھر پرکھڑا کرنا پڑے گا۔ 48 گھنٹے تو بہت ہوتے ہیں۔۔ سمجھ میں نہیں آتا ایسا کب تک چلے گا۔۔مشرف کے بچے کو براکہتے تھے۔۔زرداری آگیا۔۔۔وہ گیا نواز شریف آگیا۔۔۔پتہ نہیں یہ لوگ ہمارا کب سوچیں گے۔“
دوسرا منظر
نیوکراچی کا انڈسٹریل ایریا۔ یہاں فیکٹریاں ہی فیکٹریاں ہیں۔ ٹیکسٹائل، ہوزری، پلاسٹک اور ایسی ہی بہت سی فیکٹریاں۔ بھاری بھرکم مشینیں چلتی ہیں تو یہاں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ سچ یہ ہے کہ ان مشینوں کی مسلسل حرکت ہی یہاں کے ہزاروں لوگوں کے گھروں کے انگنت چولہے جلنے کی ضامن ہیں۔
ہر روز ہزاروں مزدور اور کاریگر شہر کے مختلف حصوں سے یہاں پہنچ کر اپنا روز گار حاصل کرتے ہیں ۔ ایک ڈیڑھ عشرہ پہلے ان کا گزارا کم آمدنی میں بھی ہوجاتا تھا۔ لیکن، اب یہ گزارا بھی لوہے کے چنے چبانے جتنا مشکل ہوگیا ہے۔ پلاسٹک کی مولڈنگ کے ایک کاریگر محمد ستار کا کہنا ہے کچھ سال پہلے تک ان کی تنخواہ 5000روپے ہزار تھی، اوور ٹائم تھا، اتوار اور دیگر چھٹیوں میں بھی کام کرتے تھے تو کچھ اضافی آمدنی ہوجاتی تھی۔ مگراب وہ ڈیلی اجرت پر ہیں۔۔۔یعنی کام کیا تو پیسے مل گئے ۔۔کام نہیں ہوا تو مزدوری اور تنخواہ سب گول۔
محمد ستار کہتے ہیں”گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے سب کچھ تباہ کردیا ہے۔ ایک دن میں تین، تین گھنٹے کے لئے تین بار لائٹ جاتی ہے۔ ڈیوٹی 8گھنٹے کی ہوتی ہے اور لوڈ شیڈنگ 9گھنٹے کی۔ ایسے میں سب کچھ ٹھپ پڑجاتا ہے۔ مشینیں رک جاتی ہیں، سب کچھ تھم جاتا ہے ۔۔ایسے میں مال تیار نہیں ہوتا۔ مالک کی اپنی آمدنی آدھی رہ گئی وہ ہماری کیا سنے گا۔ بچوں کی فیسیں رکی ہوئی ہیں۔ کئی لوگوں نے بچوں کو اسکولوں سے اٹھالیا ہے۔ بیماروں نے دو وقت کی دوا چار چار وقت چلانا شروع کردی۔۔۔جائیں تو جائیں کہاں۔ بجلی کی کمی تھی تو مالک نے مشینیں گیس پر چلانا شروع کردیں ۔۔اب گیس کی بھی لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی ہے۔ غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔
پس منظر
توانائی کے اس قدر سخت بحران نے لوگوں کو عاجز کردیا ہے۔ وہ متبادل ذرائع تلاش کررہے ہیں۔ کچھ نے تو اپنے طور پر متبادل ذرائع تلاش بھی کرلئے ہیں۔ مثلاً، کوئلے والی استری دوبارہ مارکیٹ میں اِن ہوگئی ہے۔ کوئٹہ سے رشین لال ٹین دوبارہ کراچی پہنچنے لگی ہیں ورنہ پہلے یہ لال ٹین روس سے کوئٹہ آتی تھیں اور یہاں سے اندرون ملک یا گاوٴں دیہاتوں میں بھیج دی جاتی تھیں۔ اب کراچی جیسے بڑے اور کاسموپولیٹن سٹی کہلائے جانے والے شہر میں ان کی اشد ضرورت ہے۔
اولڈ سٹی ایریا خاص کر ’کھوڑی گارڈن‘ میں گنے کا جوس نکالنے کے لئے برقی مشینوں کی جگہ لکڑی کی ہاتھ سے چلنے والی مشینیں آگئی ہیں۔ نمائندہ بذات خود اس کا چشم دید گواہ ہے۔ اسی طرح ،گرمی میں ہاتھ کے پنکھوں کی ڈیمانڈ بڑھتی جارہی ہے۔ لوگوں نے ایک مرتبہ پھر رات میں چھتوں پر کھلے آسمان تلے سونا شروع کردیا ہے۔شہر میں چھوٹے چھوٹے فلیٹوں کی بھرمار ہے وہ لوگ رات گئے لائن آنے کے انتظار میں گھروں سے باہر تھلوں پر بیٹھ کر وقت گزارتے ہیں۔
چونکہ گیس کی قلت ہے، لہذا شہر کے مختلف علاقوں میں واقع فرنیچر مارکیٹوں، لکڑی کے اسٹالوں اور گوداموں کے اطراف میں فالتو لکڑی کے ٹکڑے اور برادہ جمع کرنے کا کام زور پکڑ گیا ہے۔ اس حوالے سے بہت سی اخباری رپورٹس بھی شائع ہوچکی ہیں۔ گولیمار، زینت اسکوائر، ایف سی ایریا، لیاقت آباد، منظور کالونی، اورنگی ٹاوٴن، کورنگی، مہاجر کیمپ، ٹمبر مارکیٹ، منظور کالونی، محمود آباد، آرام باغ، سلطان آباد اور نرسری۔۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں گیس گھروں میں بھی کم ہی آتی ہے۔ گھروں میں کھانا تک بعض اوقات پکانا مشکل ہوتا ہے۔ مجبوراً، ہوٹلوں پر کھانے کے لئے لائن لگانا پڑتی ہے۔ گیس کا کم پریشر تندور گرم نہیں رکھ پاتا۔ لہذا، تندوروں میں لکڑیاں اور کوئلے جلاجلاکر کام چلایا جارہا ہے۔
شہر میں لکڑی کے برادے اور کوئلے سے چلنے والی انگیٹھیاں تقریباً ناپید ہوگئی تھیں مگر اب بھٹے بیچنے والوں سے لیکر شکرقندی، چپاتی اور بیکری آئٹم بنانے والے تک انگیٹھیاں دوبارہ استعمال کرنے لگے ہیں۔
پہلا منظر
مین یونیورسٹی روڈ پر ’پی آئی اے پلانیٹوریم‘ سے کچھ آگے ۔۔سوک سینٹر کی جانب جاتے ہوئے ۔۔۔دائیں ہاتھ پر واقع پاکستان اسٹیٹ آئل کا پیٹرول پمپ۔ یہاں سی این جی (یعنی کمپریسڈ نیچرل گیس) بھی ملتی ہے۔ اس وقت، صبح کے سات بج رہے ہیں۔ بلا کی سردی ہے۔ ہاتھ ٹھٹھر رہے ہیں۔ جسم کانپ رہے ہیں۔
اگرچہ، وہ اتوار کا دن تھا۔۔ لوگ دیر سے سو کر اٹھنے کے عادی ہیں۔ لیکن، چونکہ ایک روز پہلے ہی یہ اعلان ہوچکا تھا کہ سی این جی اگلے 48گھنٹوں کے لئے بند ہوجائے گی۔ لہذا، کار، رکشا، ٹیکسی، بسوں اور ویگن ڈرائیورز ساری رات میلوں دور تک پھیلی لائنوں میں لگ کر سی این جی بھروانے کی کوششوں میں ہیں۔
طویل انتظار۔ ٹھنڈ۔ بے آرامی اور بے وقت کی کوفت نے لوگوں کے لہجوں میں جھنجلاہٹ پیدا کر دی ہے۔ ہر شخص کی کوشش ہے کہ صبح کے آٹھ بجے سے پہلے پہلے گیس بھروا لے، تاکہ اس کا پہیہ چلتا رہے۔ ایسے میں کوئی دوسرا گاڑی آگے بڑھانے میں رتی برابر بھی دیر کردے تو پیچھے والا چلانے لگتا ہے۔ گیس بھرنے والا عملہ تھوڑی سی بھی دیر لگائے تو بھی کئی لوگ ایک ساتھ اس پر چڑھ دوڑتے ہیں۔
زیر نظر رپورٹ میں آنکھوں دیکھی لکھنے اور’ دل‘ سے محسوس کرنے کی غرض سے ’وی او اے‘ کا نمائندہ بھی اس لائن میں اپنی گاڑی لیکر کھڑا ہوا تھا۔ ایک شور، ایک ہنگامہ ہوتا ہے، گاڑیوں کے ہارن، ٹریفک کا شور اور لوگوں کا چیخنا چلانا۔۔۔کچھ نوجوانوں کا جذبات سے بے قابو ہوجانا ۔۔۔دھمکی آمیز لہجے۔۔۔غصے سے بھری تکراریں۔۔۔یہ سب کچھ اب کسی ایک دن کا قصہ نہیں رہا۔ ہفتے میں تین یا چار دن سی این جی بند ہوتی ہے اور ہر بار گیس بند ہونے سے پہلے اور کھلنے کے بعد تک یہی سب کچھ ہوتا ہے۔
گیس کے حصول کی غرض سے لائن میں لگے ایک سی این جی گیس پر چلنے والے آٹو رکشا کے مالک دل فراز خان کا کہنا تھا، ”بہت برا وقت آگیا ہے۔۔۔بچوں کا پیٹ پالنا مشکل ہوگیا۔۔ سو، دوسو روپے کی گیس بھروانے کے لئے چار گھنٹوں سے لائن میں کھڑا ہوں۔۔ سلینڈر چھوٹا ہے زیادہ گیس نہیں آتی۔۔۔پھر کمائی بھی اتنی نہیں۔۔جب تک گیس چلے گی، چلے گی پھر بند کرکے گھر پرکھڑا کرنا پڑے گا۔ 48 گھنٹے تو بہت ہوتے ہیں۔۔ سمجھ میں نہیں آتا ایسا کب تک چلے گا۔۔مشرف کے بچے کو براکہتے تھے۔۔زرداری آگیا۔۔۔وہ گیا نواز شریف آگیا۔۔۔پتہ نہیں یہ لوگ ہمارا کب سوچیں گے۔“
دوسرا منظر
نیوکراچی کا انڈسٹریل ایریا۔ یہاں فیکٹریاں ہی فیکٹریاں ہیں۔ ٹیکسٹائل، ہوزری، پلاسٹک اور ایسی ہی بہت سی فیکٹریاں۔ بھاری بھرکم مشینیں چلتی ہیں تو یہاں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ سچ یہ ہے کہ ان مشینوں کی مسلسل حرکت ہی یہاں کے ہزاروں لوگوں کے گھروں کے انگنت چولہے جلنے کی ضامن ہیں۔
ہر روز ہزاروں مزدور اور کاریگر شہر کے مختلف حصوں سے یہاں پہنچ کر اپنا روز گار حاصل کرتے ہیں ۔ ایک ڈیڑھ عشرہ پہلے ان کا گزارا کم آمدنی میں بھی ہوجاتا تھا۔ لیکن، اب یہ گزارا بھی لوہے کے چنے چبانے جتنا مشکل ہوگیا ہے۔ پلاسٹک کی مولڈنگ کے ایک کاریگر محمد ستار کا کہنا ہے کچھ سال پہلے تک ان کی تنخواہ 5000روپے ہزار تھی، اوور ٹائم تھا، اتوار اور دیگر چھٹیوں میں بھی کام کرتے تھے تو کچھ اضافی آمدنی ہوجاتی تھی۔ مگراب وہ ڈیلی اجرت پر ہیں۔۔۔یعنی کام کیا تو پیسے مل گئے ۔۔کام نہیں ہوا تو مزدوری اور تنخواہ سب گول۔
محمد ستار کہتے ہیں”گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے سب کچھ تباہ کردیا ہے۔ ایک دن میں تین، تین گھنٹے کے لئے تین بار لائٹ جاتی ہے۔ ڈیوٹی 8گھنٹے کی ہوتی ہے اور لوڈ شیڈنگ 9گھنٹے کی۔ ایسے میں سب کچھ ٹھپ پڑجاتا ہے۔ مشینیں رک جاتی ہیں، سب کچھ تھم جاتا ہے ۔۔ایسے میں مال تیار نہیں ہوتا۔ مالک کی اپنی آمدنی آدھی رہ گئی وہ ہماری کیا سنے گا۔ بچوں کی فیسیں رکی ہوئی ہیں۔ کئی لوگوں نے بچوں کو اسکولوں سے اٹھالیا ہے۔ بیماروں نے دو وقت کی دوا چار چار وقت چلانا شروع کردی۔۔۔جائیں تو جائیں کہاں۔ بجلی کی کمی تھی تو مالک نے مشینیں گیس پر چلانا شروع کردیں ۔۔اب گیس کی بھی لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی ہے۔ غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔
پس منظر
توانائی کے اس قدر سخت بحران نے لوگوں کو عاجز کردیا ہے۔ وہ متبادل ذرائع تلاش کررہے ہیں۔ کچھ نے تو اپنے طور پر متبادل ذرائع تلاش بھی کرلئے ہیں۔ مثلاً، کوئلے والی استری دوبارہ مارکیٹ میں اِن ہوگئی ہے۔ کوئٹہ سے رشین لال ٹین دوبارہ کراچی پہنچنے لگی ہیں ورنہ پہلے یہ لال ٹین روس سے کوئٹہ آتی تھیں اور یہاں سے اندرون ملک یا گاوٴں دیہاتوں میں بھیج دی جاتی تھیں۔ اب کراچی جیسے بڑے اور کاسموپولیٹن سٹی کہلائے جانے والے شہر میں ان کی اشد ضرورت ہے۔
اولڈ سٹی ایریا خاص کر ’کھوڑی گارڈن‘ میں گنے کا جوس نکالنے کے لئے برقی مشینوں کی جگہ لکڑی کی ہاتھ سے چلنے والی مشینیں آگئی ہیں۔ نمائندہ بذات خود اس کا چشم دید گواہ ہے۔ اسی طرح ،گرمی میں ہاتھ کے پنکھوں کی ڈیمانڈ بڑھتی جارہی ہے۔ لوگوں نے ایک مرتبہ پھر رات میں چھتوں پر کھلے آسمان تلے سونا شروع کردیا ہے۔شہر میں چھوٹے چھوٹے فلیٹوں کی بھرمار ہے وہ لوگ رات گئے لائن آنے کے انتظار میں گھروں سے باہر تھلوں پر بیٹھ کر وقت گزارتے ہیں۔
چونکہ گیس کی قلت ہے، لہذا شہر کے مختلف علاقوں میں واقع فرنیچر مارکیٹوں، لکڑی کے اسٹالوں اور گوداموں کے اطراف میں فالتو لکڑی کے ٹکڑے اور برادہ جمع کرنے کا کام زور پکڑ گیا ہے۔ اس حوالے سے بہت سی اخباری رپورٹس بھی شائع ہوچکی ہیں۔ گولیمار، زینت اسکوائر، ایف سی ایریا، لیاقت آباد، منظور کالونی، اورنگی ٹاوٴن، کورنگی، مہاجر کیمپ، ٹمبر مارکیٹ، منظور کالونی، محمود آباد، آرام باغ، سلطان آباد اور نرسری۔۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں گیس گھروں میں بھی کم ہی آتی ہے۔ گھروں میں کھانا تک بعض اوقات پکانا مشکل ہوتا ہے۔ مجبوراً، ہوٹلوں پر کھانے کے لئے لائن لگانا پڑتی ہے۔ گیس کا کم پریشر تندور گرم نہیں رکھ پاتا۔ لہذا، تندوروں میں لکڑیاں اور کوئلے جلاجلاکر کام چلایا جارہا ہے۔
شہر میں لکڑی کے برادے اور کوئلے سے چلنے والی انگیٹھیاں تقریباً ناپید ہوگئی تھیں مگر اب بھٹے بیچنے والوں سے لیکر شکرقندی، چپاتی اور بیکری آئٹم بنانے والے تک انگیٹھیاں دوبارہ استعمال کرنے لگے ہیں۔