دو روزہ دورہٴسعودی عرب کے آغاز پر، ترک صدر رجب طیب ایردوان اتوار کو سعودی عرب پہنچے، جس کا مقصد ترکی کے اتحادی اور اُس کے ہمسایہ ملکوں کے مابین تطعل کو ختم کرنا ہے۔
روانگی سے قبل، استنبول ہوائی اڈے پر اردوان نے کہا کہ ’’اس بحران کو مزید طول دینے میں کسی کو کوئی دلچسپی نہیں۔ مجھے امید ہے کہ ہمارا دورہ خطے کے لیے سودمند ثابت ہوگا‘‘۔
اردوان نے دورے کا آغاز بندرگاہ والے سعودی شہر، جدہ سے کیا جہاں اُنھوں نے بادشاہ سلمان بن عبد العزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ مذاکرات کیے۔
وہاں سے، ترک صدر کویت جائیں گے جہاں وہ امیر شیخ صباح الاحمد الصباح سے ملاقات کریں گے، جس کے بعد وہ قطر روانہ ہوں گے جہاں اُن کی امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی سے ملاقات ہوگی۔
سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے قطر کے ساتھ تعلقات منسوخ کردیے ہیں۔ وہ بَری اور بحری محاصرے پر عمل پیرا ہیں، تیل سے مالا مال ملک پر یہ الزام لگاتے ہوئے کہ وہ شدت پسند گروہوں کی اعانت کرتے ہیں اور خطے میں عدم استحکام کے باعث ہیں، جِن الزامات کو قطر مسترد کرتا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے بحران کے دوران، ترکی نے 2014ء میں ہونے والے ایک سمجھوتے کے تحت قطر میں ایک فوجی اڈا قائم کیا ہے۔ ترکی کی جانب سے ہتھیاروں کی تعیناتی، جیسا کہ ٹینک، فوجی اڈا اور بڑھتا ہوا اثر رسوخ شامل ہے۔
سعودی قیادت والے گروپ نے قطر کے خلاف 13 مطالبات پر مشتمل فہرست پیش کی، لیکن ترک فوجی اڈے کو بند کرنے کا مطالبہ واپس لیا گیا، جس کا سہرا ترکی اپنے نام کرتا ہے۔