ترکی کے صدر کے محافظوں اور حامیوں کی طرف سے احتجاج میں شامل مخالفین پر رواں ہفتہ واشنگٹن میں ترکی کے سفارت خانہ کے باہر مار پیٹ کرنے پر امریکہ کے محکمہ خارجہ نے ترکی کے سفیر کو طلب کیا ہے۔
محکمہ خارجہ کے ایک عہدیدار نے کہا کہ واشنگٹن میں ترکی کے سفارت خانے کے باہر ہونے والے پر تشدد واقعہ کے بعد ترکی کے سفیر سردارکلق نے بدھ کو امریکہ کے نائب وزیر خارجہ تھامس شینن سے ملاقات کی۔
وزارت خارجہ کے ترجمان ہیتھر نورٹ نے کہا کہ "تقریر کی آزادی کا مناسب جواب تشدد نہیں ہے اور ہم ہر جگہ پر لوگوں کے آزادی اظہار کے حق اور پرامن احتجاج کی حمایت کرتے ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "ہم ہر ممکن سخت انداز میں ترکی کی حکومت کو اپنی تشویش سے آگاہ کر رہے ہیں۔ "
ریپبلکن سینیٹر اور سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سربراہ جان مکین اس سے بھی سخت اقدام کے متمنی ہیں۔
مکین نے ’’ایم ایس این بی سی‘‘ کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ترکی کے سفیر کو ملک بدر کر دینا چاہیئے۔
دیگر امریکہ عہدیداروں ںے بھی اردوان کے حامیوں کی طرف سے پرامن مظاہرین پر حملہ آور ہونے پر تقنید کی اور کہا کہ ترکی کے سفیر کی رہائش گاہ کے باہر ان کا طرز عمل امریکہ کے آزادی اظہار کے تحفظ کی خلاف ورزی ہے۔
ترک سفارت خانے نے تشدد کا الزام کردستان ورکرز پارٹی ’پی کے کے‘ کے حامی گروپ پر عائد کیا جس نے اُن ترک نژاد امریکی شہریوں کو مشتعل کیا جو اردوان کے استقبال کے لیے وہاں جمع تھے۔
سفارت خانے نے ایک بیان میں کہا کہ "تشدد اور (لوگوں کے) زخمی ہونے کی وجہ اشتعال انگیز مظاہرہ تھا جس کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔"
ترکی ’پی کے کے‘ کو دہشت گرد گروپ قرار دے چکا ہے۔
منگل کو ترکی کے سفارت خانے کے باہر ہونے والی جھڑپ میں 11 افراد زخمی ہوئے جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک ہے۔ یہ واقعہ وائٹ ہاؤس میں ترک صدر کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے چند گھنٹوں کے بعد رونما ہوا۔