یورپین پارلیمنٹ نے روس پرالزام عائد کیا ہے کہ وہ یوکرین میں "دہشت گردی کے واقعات" میں ملوث ہے۔
یورپی پارلیمان نے جمعرات کو برسلز میں ہونے والے اپنے اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں روس کی "جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسی" کی مذمت کی گئی ہے۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یورپی پارلیمان روس کے حمایت یافتہ باغیوں کی مشرقی یوکرین میں "دہشت گردی اور مجرمانہ طرزِ عمل" کی بھی سخت مذمت کرتی ہے۔
یہ قرارداد ایک ایسے وقت منظور کی گئی ہے جب یوکرین میں ان 13 عام شہریوں کے لیے قومی سطح پر یومِ سوگ منایا جارہا ہے جو منگل کو باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقے دونیسک میں ایک مسافر بس پر راکٹ حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔
یوکرینی حکومت نے اس حملے کا الزام باغیوں پر عائد کیا ہے جب کہ روس نے یوکرین کے فوجی دستوں کو اس حملے کا ذمہ دار ٹہرایا ہے۔
اپنی قرارداد میں پورپی پارلیمان نے روس پر عائد اقتصادی پابندیاں اس وقت تک برقرار رکھنے پر زور دیا ہے جب تک وہ قرارداد میں درج شرائط پوری نہیں کرتا۔
قراراد میں روس سے یوکرین میں گزشتہ سال ستمبر میں طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدے کی پاسداری کرنے، مشرقی یوکرین سے روسی فوجی دستوں اور "غیر قانونی مسلح گروہوں" کی غیر مشروط واپسی، قیدیوں کے تبادلے اور کرائمیا سمیت تمام علاقوں پر یوکرین کی عمل داری بحال کرنے کے مطالبات کیے گئے ہیں۔
یورپی پارلیمان کی قرارداد میں سفارش کی گئی ہے کہ اگر روس یوکرین کو غیر مستحکم کرنے کی کارروائیاں جاری رکھتا ہے تو اس پر عائد پابندیوں کا دائرہ وسیع کیا جائے۔
دریں اثنا یوکرینی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے دعویٰ کیا ہے کہ مشرقی یوکرین میں سرگرم علیحدگی پسند فورسز کے اہلکاروں کی تعداد 36 ہزار تک جا پہنچی ہے جن میں روسی فوج کے ساڑھے آٹھ ہزار حاضر سروس فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔
روس کی قومی سلامتی اور دفاعی کونسل کے سیکریٹری اولیگزنڈر ٹرچینوف نے دارالحکومت کیِو میں صحافیوں کو بتایا کہ علیحدگی پسندوں کے پاس 542 ٹینک، 990 بکتر بند گاڑیاں، 694 توپ خانے اور 57 اینٹی ایئر کرافٹ میزائل فائرنگ سسٹم بھی ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ روس کے 52 ہزار اہلکاروں پر مشتمل فوجی دستے یوکرین کی سرحد کے ساتھ "مکمل جنگی حالت" میں موجود ہیں جن کی مدد کے لیے 300 ٹینک، 1800 بکتر بند گاڑیاں، 750 توپ خانے اور 360 جنگی طیارے اور گن شپ ہیلی کاپٹر بھی سرحد پر تعینات ہیں۔
الیگزنڈر ٹرچینوف نے خبردار کیا کہ روسی مسلح افواج کی اس کھلی جارحیت اور تنازع میں براہِ راست اور بڑے پیمانے پر شرکت کا نتیجہ ایک ایسی جنگ کی صورت میں برآمد ہوسکتا ہے، جو ان کے بقول، پورے براعظم یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ روس، یوکرین اور مغربی ملکوں کے مسلسل الزامات کے برخلاف مشرقی یوکرین میں براہِ راست مداخلت کی تردید کرتا رہا ہے۔