رسائی کے لنکس

یورپی یونین میں برطانیہ کا مستقبل اور اس کے اثرات


برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈکیمرون
برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈکیمرون

وزیرِ اعظم کیمرون کو وعدہ کرنا پڑا ہے کہ وہ یورپی یونین کے ساتھ برطانیہ کے تعلقات پر نئے سرے سے مذاکرات کریں گے اور اس کے بعد، اگر وہ اس پورے عمل کے دوران دوبارہ منتخب ہو گئے تو پانچ سال کے اندر ایک ریفریڈم منعقد کریں گے۔

برطانیہ کے وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ایک عمل شروع کر دیا ہے جس کے نتیجے میں برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہو سکتا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہو گیا تو اس سے برطانیہ کی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

برطانیہ کی معیشت کا انحصار تجارت اور مالیاتی خدمات پر ہے۔ یورپ کے براعظم کے ساتھ اشیاء اور خدمات کی آزادانہ تجارت سے ملک کو زبردست فائدہ ہوا ہے لیکن برطانیہ میں ایسے لوگوں کی تعداد روز افزوں ہے جو یورپی یونین کو اپنے اقتدارِ اعلیٰ کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔

اس کے نتیجے میں وزیرِ اعظم کیمرون کو وعدہ کرنا پڑا ہے کہ وہ یورپی یونین کے ساتھ برطانیہ کے تعلقات پر نئے سرے سے مذاکرات کریں گے اور اس کے بعد، اگر وہ اس پورے عمل کے دوران دوبارہ منتخب ہو گئے تو پانچ سال کے اندر ایک ریفریڈم منعقد کریں گے۔

‘‘ہم نے صاف صاف بتا دیا ہے کہ ہم کس قسم کی تبدیلیاں چاہتے ہیں۔ ایسے بہت سے شعبے ہیں، جن میں سماجی قانون سازی، روزگار کے بارے میں قانون سازی، ماحول کے بارے میں قانون سازی شامل ہیں، جن میں یورپ حد سے آگے بڑھ گیا ہے۔’’

مسٹر کیمرون نے کہا کہ وہ ایک منڈی کے تصور کو باقی رکھنا چاہتے ہیں لیکن وہ اس کے بعض ضابطوں سے بچنا چاہتے ہیں۔ سینٹر فار یورپین ریفارم کے تجزیہ کار سٹیفن ٹنڈیل کہتے ہیں کہ اس طرح کام نہیں چلے گا۔

‘‘ان کا منصوبہ بالکل غیر عملی ہے کیوں کہ ایسی بہت سی رکاوٹیں ہوں گی جن کا تعلق محصولات کی ادائیگی سے نہیں ہے۔ ضابطے مختلف ہو سکتے ہیں، معیار مختلف ہو سکتے ہیں لہٰذا یورپ کے ساتھ اشیاء کی تجارت اتنی آزادانہ نہیں ہو گی جتنی آج کل ہے۔’’

بزنس کے لیے یہ کوئی اچھی تصویر نہیں ہے لیکن جمعرات کے روز برطانیہ کی 56 سرکردہ کاروباری شخصیتوں نے وزیراعظم کے منصوبے کی تائید کی۔ ان میں لندن اسٹاک ایکسچینج اور ملک کے ایک بڑے بینک کے سربراہ شامل ہیں۔

لیکن سٹیفن نے انتباہ کیا ہے کہ ان کاروباری لیڈروں اور وزیرِ اعظم نے جن تبدیلیوں کا تصور پیش کیا ہے ان کے یورپی لیڈروں کی طرف سے قبول کیے جانے کا امکان نہیں ہے۔

‘‘یورپی یونین کے دوسرے ارکان بالآخر انہیں الگ ہو جانے دیں گے اگر اختیارات کی واپسی کی جو فہرست انھوں نے پیش کی ہے، وہ بہت طویل ہو گئی۔’’

یورپی عہدے داروں نے اس طرف پہلے ہی اشارہ کر دیا ہے۔ ان عہدے داروں میں فرانسیسی حکومت کی خاتون ترجمان ماجت ولایود شامل ہیں، وہ کہتی ہیں۔ ‘‘یورپی یونین کے رکن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں اور ہم جس قسم کے یورپ میں یقین رکھتے ہیں، اور جس یورپ میں رہتے ہیں، وہ یکجہتی کے ایک معاہدے کا پابند ہے جس کا اطلاق تمام ارکان پر ہوتا ہے۔ ورنہ یہ یکجہتی باقی نہیں رہے گی۔’’

لیکن برطانیہ کو کبھی بھی یکجہتی میں اتنی زیادہ دلچسپی نہیں رہی جتنی یورپی یونین کے دوسرے بہت سے ارکان کو رہی ہے ۔ برسوں پہلے وہ یورپی یونین کے دو بنیادی پہلوؤں سے یعنی مشترکہ کرنسی اور کھلی سرحدوں کے سمجھوتے سے نکل گیا تھا۔

لندن اسکول آف اکنامکس میں یورپ کے ماہر لین بیگ کہتے ہیں کہ اگرچہ یورو کے بحران کی وجہ سے برِ اعظم یورپ کے بیشتر ملک ایک دوسرے کے زیادہ قریب آ رہے ہیں لیکن برطانیہ میں رجحان اس سے مختلف ہے۔

‘‘میں دیکھ رہا ہوں کہ یورپ ایک مخصوص سمت میں جا رہا ہے وہاں مختلف ممالک ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ لیکن وفاقیت کے اس رجحان سے برطانیہ میں پریشانی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ لہٰذا اس کا نتیجہ صرف علیحدگی کی صورت میں ہی نکل سکتا ہے۔’’

وزیراعظم کیمرون اور ان کے حامی علیحدگی نہیں چاہتے۔ ان کا مقصد صرف تعلق میں بہتری لانا ہے۔ لیکن یورپی یونین کے 26 دوسرے ملکوں کے ساتھ مذاکرات کا منصوبہ اور پھر اس کے بارے میں ریفرینڈم کے انعقاد سے غیر یقینی کی کیفیت پیدا ہو جائے گی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں ہو سکتا ہے کہ برطانیہ وہاں پہنچ جائے جہاں مسٹر کیمرون اسے لے جانا نہیں چاہتے، یعنی یورپی یونین سے علیحدگی۔
XS
SM
MD
LG