ایسے میں جب کرونا وائرس کی عالمی وبا تھمنے میں نہیں آرہی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی خوش امیدی ظاہر کی جارہی ہے، ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے سمجھوتہ کرتے ہوئے یہ غور کیا جارہا ہے کہ اس کے ساتھ کس طرح گزارا کیا جاسکتا ہے؟
بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ حفاظتی اقدامات اختیار کرتے ہوئے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ روزمرہ کے معمولات کو بتدریج کس طرح بحالی کی طرف لے جایا جاسکتا ہے، تاوقتکہ اس سے بچاؤ کی کوئی ویکسین دریافت نہیں کرلی جاتی۔
بہت سے ممالک جن میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملک دونوں شامل ہیں، کرونا وائرس کی وبا سے معیشت پر پڑنے والے تباہ کن اثرات کے پیش نظر نہایت پریشان ہیں اور وہ متبادل لائحہ عمل پر غور کررہے ہیں۔
اس پس منظر میں مہینوں کی حد بندیوں کے بعد یورپی یونین نے یکم جولائی سے چودہ ملکوں کے لئے اپنی سرحدوں کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جنھیں یورپی یونین محفوظ خیال کرتی ہے۔ تاہم، اس فہرست میں امریکہ شامل نہیں ہے، جہاں بعض ریاستوں میں کرونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے۔
وائس آف امریکہ کی نامہ نگار لیزابرائینٹ نے پیرس سے اپنی رپورٹ میں اس جانب توجہ دلائی ہے کہ سفر پر پابندی سے بحر اوقیانوس کے آرپار کے ممالک کے درمیان اختلافات کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔
پیرس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کا ایسا شہر ہے جہاں سب سے زیادہ سیاح آتے ہیں۔ لیکن فی الوقت وہاں کی پر رونق سڑکیں اور گلیاں غیر معمولی طور پر خاموش نظر آتی ہیں۔ کچھ مقامی سیاح تو دیکھے جاتے ہیں، لیکن غیر ملکی سیاح موجود نہیں، خاص کر امریکی جن پر سب سے زیادہ تکیہ کیا جاتا رہا ہے۔
ٹورزم کی صنعت سے تعلق رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ سیاحت پیرس کا سب سے بڑا کاروبار ہے اور علاقے کے تقریباً دس فیصد لوگوں کی روزی روٹی اسی سے جڑی ہوئی ہے۔ سب سے زیادہ بڑی تعداد میں سیاحوں کا تعلق امریکہ سے ہوتا ہے، لیکن فی الحال ایسا نہیں، اس لئے کہ یورپی یونین کی نئی فہرست کے مطابق جن ملکوں کے سیاحوں کو آنے کی اجازت دی گئی ہے ان میں امریکہ شامل نہیں ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ مہینے امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ امریکہ یورپی یونین سے رابطے میں ہے کہ سرحدوں کو کس طرح کھولا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ قابل غور بات یہ ہے کہ ہم عالمی معیشت کو دوبارہ کس طرح معمول پر لاسکتے ہیں۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ یہ کام سائنس اور صحت کے اصولوں کی روشنی میں انجام دیا جائے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں کہ سیاحت پر پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ تھوڑا ہی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ مارچ کے مہینے میں جب یورپ اس عالمگیر وبا کا مرکز بناہوا تھا تو واشنگٹن نے یورپی سیاحوں پر پابندی لگادی تھی اور اب جبکہ اس وبا نے امریکہ کی بعض ریاستوں میں بڑے پیمانے پر سر اٹھایا ہے اور ادھر یورپ میں صورتحال میں بہتری آئی ہے تو یورپی ممالک جوابی کاروائی کررہے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ گویا ادلے بدلے والی بات ہے۔ مبصرین نے اس جانب بھی توجہ دلائی ہے کہ یورپ کو ایسا احساس ہوا کہ اس عالمگیر وبا کے دوران جب امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا تو وہ درمیان میں پھنس گیا ہے اور یورپ کو بظاہر یہ شکایت پیدا ہوئی کہ اس کے ساتھ اتحادیوں جیسا سلوک نہیں کیا گیا۔ لہذا، وہ سجھتے ہیں کہ انھیں اب خود اپنا سفر طے کرنا ہوگا۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک عارضی سوچ ہے، جو بہت جلد معمول پر لوٹ آئے گی۔