’اوسلو میں فائرنگ اور بم دھماکے کاواقعہ اوریورپ میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی‘ کےموضوع پر گفتگو میں برمنگھم سے برطانوی رکنِ پارلیمنٹ خالد محمود کا کہنا تھا کہ یورپ کے کافی ممالک میں مختلف مذاہب سےتعلق رکھنے والے دائیں بازو کے انتہا پسند سامنے آرہے ہیں۔اِس ضمن میں، اُنھوں نے ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں ہونے والی دہشت گردی کی مثال پیش کی۔
اُنھوں نے یہ بات منگل کو ’ وائس آف امریکہ ‘ کے حالاتِ حاضرہ کے پروگرام میں شرکت کرتے ہوئے کہی۔
برطانوی رکن ِپارلیمان نے کہا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ مسلمانوں کو الگ تھلگ رہنے کے بجائے ’سیاست اور معاشرے کے قومی دھارے میں شامل ہونا چاہیئے‘۔
یاد رہے کہ اوسلو میں ملزم اینڈرز بیرنگ بریوک پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا ہے جِس میں اُس پر اوسلو میں واقع وزیرِاعظم کے دفتر کو بم حملے کا نشانہ بنانے اور یٹویا نامی جزیرے پر جاری نوجوانوں کے ایک کیمپ کے شرکاء پر فائرنگ کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ اِن واقعات میں 90 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
علاوہ ازیں، فرانس ، سویڈن اور ہالینڈ کی مثال دیتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ وہاں پر ذبیحہ پر ممانعت عائد کردی گئی ہے، جِس معاملے میں صاحبانِ اقتدار کو اسلام کی مذہبی روایات سے آگاہ کرنے اوراُنھیں دلیل اور استدعا سےقائل کرنے کی ضرورت ہے۔
خالد محمود کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سےمختلف وجوہ کی بنا پراِس وقت مسلمان اور اسلام ہدف بنے ہوئے ہیں۔ اُن سے معلوم کیا گیا تھا کہ اِس طرح کا رویہ یورپ میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے یا پھر تمام تارکینِ وطن کو اِسی طرح کی آزمائش سے گزرنا پڑ رہا ہے۔
نامور صحافی پی جے میر کا کہنا تھا کہ 9/11کے بعد مسلمان ہی ہدفِ تنقید بنے ہوئے ہیں۔اُنھوں نے کہا کہ اوسلو واقعے کے بعد فوری ردِ عمل یہی تھا کہ یہ کسی مسلمان کا ہی فعل ہوگا، جو غلط ثابت ہوا۔ اُنھوں نے کہا کہ انتہا پسندی کا تعلق کسی خاص معاشرے یا مذہب سے نہیں۔
پی جے میر نے تجویز دی کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ دانشوراور تھنک ٹینکس کی ایک بین الاقوامی کانفرنس بلائی جائے جودہشت گردی اور انتہا پسندی کے معاملے پر غور و غوض کے بعد اپنی سفارشات پیش کرے۔
اُنھوں نے کہا کہ اِس وقت عالمی سطح پر آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے جِس کے حصول کے لیےبین الاقوامی سطح پر بین المذاہب مکالمے کی اشد ضرورت ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: