ناروے میں خوفناک بم دھماکے اور فائرنگ کے الزام میں گرفتار مشتبہ شخص نے پولیس کو بتایا ہے کہ اس نے یہ کارروائیاں انفرادی طور پر کیں۔
لیکن ناروے کی انسداد دہشت گردی پولیس کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے دارالحکومت اوسلو کے مشرقی علاقے میں جمعے کو ہونے والے واقعات کے سلسلے میں چھاپا مارا ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ نے متعدد افراد کی گرفتاری کی اطلاع دی ہے۔
ناروے کی قومی پولیس کے قائم مقام سربراہ Sveinung Sponheim نے اتوار کو صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ ”وہ (اینڈرز بیرنگ بریوک ) کا کہنا ہے کہ اُس نے یہ حملے اکیلے کیے لیکن ہمیں یہ یقین کرنا ہے کہ اس کا بیان سچ ہے۔“
اُنھوں نے کہا کہ بعض عینی شاہدین نے ایک سے زائدہ مسلح افراد کو دیکھنے کی اطلاع کی ہے۔
ایک طرف پولیس تحقیقات کر رہی ہے تو دوسری جانب ناروے کے شہری گرجوں میں دعایہ تقریبات میں شرکت کر رہے ہیں۔
ناروے کے بادشاہ اور ملکہ، وزیر اعظم اور جمعہ کے حملے میں بچ جانے والے کچھ افراد نے اوسلو کتھیڈرل میں ایک خصوصی تقریب میں حصہ لیا۔
وزیر اعظم Jen Stoltenberg نے کہا کہ ہر ایک شخص کی ہلاکت المیہ سے کم نہیں اور مجموعی طور پر یہ واقعی ایک قومی المیہ ہے۔
جمعہ کو دونوں حملوں میں کم از کم 92 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں حکومتی ہیڈکوارٹرز پر بم حملے میں سات افراد ہلاک ہوئے تھے، جس کے بعد ایک جزیرے پر قائم نوجوانوں کے کیمپ میں فائرنگ میں کم از کم 85 افراد مارے گئے۔
پولیس نے 32 سالہ بریوک کو ”بنیاد پرست عیسائی“ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا جھکاوٴ ”دائیں بازو“ کے سیاسی نظریات کی جانب ہے۔
پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ مشتبہ شخص نے انٹرنیٹ پر اسلام مخالف مواد بھی شائع کیا، جب کہ ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق وہ ناروے میں مختلف تہذیبوں کو اہمیت دینے کی بھی سخت مخالفت کرتا ہے۔