|
امریکہ نے ایک سال کے اندر دوسری بار چینی تحقیقی ادارے اور کمپنیوں پر پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے سازو سامان فراہم کرنے کے الزام میں پابندیاں عائد کی ہیں۔
اسلام آباد اور بیجنگ نے ان پابندیوں کو مسترد کر دیا ہے جو بعض ماہرین کے مطابق وسیع تر تناظر میں امریکہ کے ان ملکوں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت اور موجودہ حیثیت ظاہر کرتی ہیں۔
بعض مبصرین نے اسے امریکہ کی طرف سے بڑے ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے معمول کا اقدام قرار دیا ہے۔ دوسری طرف بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں کا بظاہر کوئی جواز نہیں ہے۔
پاکستان کے ایٹمی اور میزائل پروگراموں کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کہتے ہیں کہ پاکستان نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کے قابل سائنسدان اور ماہرین اسٹریٹجک شعبوں میں ترقی کرنے کی بخوبی صلاحیت رکھتے ہیں اور انہیں اس کام میں بیرونی مدد کی ضرورت نہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حال ہی میں نافذ کی گئی امریکی پابندیاں ناقابل فہم لگتی ہیں اور موجودہ وقت سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
واشنگٹن میں قائم تحقیقی ادارے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں پاکستان اور افغانستان اسڈی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مارون وائن بام کہتے ہیں امریکہ کی طرف سے پابندیوں کا اعلان کوئی حیران کن نہیں۔
وائن بام نے، جو محکمہ خارجہ کے مشیر بھی رہے ہیں، وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہیں نہیں لگتا کہ یہ امریکی کارروائی اسلحے کے عدم پھیلاؤ کے علاوہ کچھ اور ظاہر کرتی ہے۔
امریکہ کا پابندیوں کا جواز
واشنگٹن میں محکمہ خارجہ نے کہا کہ "بیجنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف آٹومیشن فار مشین بلڈنگ انڈسٹری" نے شاہین 3، ابابیل سسٹمز اور ممکنہ طور پر زیادہ بڑے سسٹمز کے راکٹ موٹرز کی آزمائش کے لیے سازو سامان کی خریداری میں پاکستان سے تعاون کیا ہے۔
پابندیوں کے اعلان کے بعد محکمہ خارجہ کے ترجمان نے صحافیوں کو روزانہ کی بریفنگ کے دوران اس بات کو تسلیم کیا کہ پاکستان طویل عرصے سے امریکہ کا اتحادی رہا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے بعض معاملات پر اختلافات بھی ہیں۔
ساتھ ہی ترجمان نے ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے لیے کی جانی والی کوششوں کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ امریکہ اپنے مفاد میں اقدامات اٹھا نے میں ہچکچاہٹ سے کام نہیں لے گا۔
"یہ ہماری دیرینہ پالیسی رہی ہے کہ پاکستان کے طویل فاصلے کو مار کرنے والے میزائل پروگرام کو حمایت نہ ملے۔ اور ہم پابندیوں اور دوسرے ٹولز استعمال کر کے یہ یقینی بنائیں گے کہ ہماری قومی سلامتی پر کوئی اثر نہ ہو اور یہ کہ امریکی کا مالی نظام اسلحہ پھیلانے والوں سے استعمال نہ ہو سکے۔" انہوں نے کہا۔
امریکہ نے اکتوبر 2023 میں بھی چین میں قائم تین کمپنیوں پر پاکستان کو میزائل سے متعلق اشیا کی فراہمی پر اسی طرح کی پابندیاں عائد کی تھیں۔
پابندیوں کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟
امریکہ کا کہنا ہے کہ اس کی پابندیاں ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ میں ملوث افراد کو امریکی مالی نظام استعمال کرنے سے روکیں گی۔ دوسرا یہ کہ واشنگٹن اپنی پالیسی کے تحت اسلحے کے عدم پھیلاؤ کی پالیسی پر عمل درآمد کرے گا۔
جہاں تک پاکستان کی میزائل بنانے کی صلاحیت کا تعلق ہے، ڈاکٹر ثمر مبارک مند کہتے ہیں کہ پاکستان نے یہ صلاحیت کئی سالوں قبل حاصل کر لی تھی۔
"حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان نے میزائل ٹیکنالوجی کے ذریعہ اپنے میزائل کے مار کرنے کی ر ینج کو بڑھانے سے خود ہی گریز کیا۔"
ان کے بقول "یہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہے کہ جو ملک اتنی اہم صلاحیت حاصل کر سکتا ہے وہ اپنے میزائلوں کی رینج بھی بڑھا سکتا ہے جبکہ پاکستان نے ایسا ہرگز نہیں کیا ۔"
بھارت کے ساتھ طویل عرصے سے چلے آ رہے تنازعات اور عسکری خطرات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان کا میزائل پروگرام "خالصتاً دفاعی نوعیت" کا ہے۔
ڈاکٹر مبارک مند نے، جنہوں نے شاہین اور بابر میزائلوں کو بنانے میں رہنما کردار ادا کیا، وی او اے سے بات کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ میزائل ٹیکنالوجی کا پروگرام پاکستان کو خطے میں در پیش خطرات کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔ "اس لیے میں یہ نہیں سمجھ سکتا کہ یہ کیسے امریکہ کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔"
ان کے مطابق پاکستان کے پاس اپنے اثاثوں کی حفاظت کا "جدید ترین کمانڈ اور کنٹرول نظام" ہے اور گزشتہ دہائیوں میں دہشت گردی کے بڑے چیلنجز کے دوران بھی پاکستان نے اپنے اثاثوں کی حفاظت کو یقینی بنایا۔
پاک امریکہ تعلقات
مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ماہر ڈاکٹر وائن بام کہتے ہیں کہ پاکستان ان پابندیوں پر کوئی خاص توجہ نہیں دے گا۔ انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ یہ پابندیاں چین کے مخصوص اداروں اور کمپنیوں کے خلاف عائد کی گئی ہیں۔
"جہاں تک میں سمجھتا ہوں، اس سے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا جو کہ اس وقت نہ تو بہت اچھے ہیں اور نہ ہی وہ تنزلی کا شکار ہیں۔"
"میرے خیال میں یہ پابندیاں مخصوص کمپنیوں کے خلاف ہیں۔ البتہ یہ بات بھی ہو سکتی ہے کہ یہ کسی نئی ٹیکنالوجی کے پھیلاو کے بارے میں ہوں۔"
ڈاکٹر وائن بام نے وی او اے کو بتایا کہ ایٹمی صلاحیت حاصل کرنا ایک الگ بات ہے اور اس کو استعمال کرنے کے لیے ڈلیوری سسٹم کا حصول ایک الگ بات ہے۔
"اس سے جنوبی ایشیا کی صورت حال مزید عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔"
چین اور پاکستان کا رد عمل
واشنگٹن میں چین کے سفارت خانہ کے ترجمان لو پنگ نے خبررساں ادارے "رائٹرز" کو بتایا، "چین یکطرفہ پابندیوں اور اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرنے کی سختی سے مخالفت کرتا ہے، جن کیلئے بین الاقوامی قانون میں بنیاد یا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے کوئی اختیار نہیں ہے۔"
چینی ترجمان نے کہا کہ بیجنگ چینی کمپنیوں اور افراد کے حقوق اور مفادات کی"مستحکم حفاظت" کرے گا۔
پاکستان نے اپنے رد عمل میں امریکی کارروائی کو "جانبدارانہ" قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد "سمجھتا ہے کہ اس کا محرک سیاسی ہے"۔
اسلام آباد میں محکمہ خارجہ کے ترجمان کی جانب سے اس سلسلے میں سوالوں کے جواب میں جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ بات بڑے پیمانے پر معلوم ہے کہ عدم پھیلاؤ پر کار بند ہونے کا کہتے ہوئے کچھ من پسند ملکوں کو جدید عسکری ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے استثنی دیا جاتا ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ایسے "دوہرے معیار اور امتیازی" اقدامات عدم پھیلاؤ کے نظام پر عدم اعتماد کا باعث بنتے ہیں، عسکری قوت میں فرق بڑھاتے ہیں اور "بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ" ہیں۔
ڈاکٹر وائن بام نے تسلیم کیا کہ پاکستان نے مشرق وسطی کے وسیع تر خطے میں جاری تنازعات کے حوالے سے صورت حال میں بھی گریز کی پالیسی اپنائی ہے۔
انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ امریکہ کے پابندیوں کے اقدام کے پیچھے پاکستان کو کسی مسئلے پر دباو میں لانے جیسا کوئی سیاسی محرک ہو سکتا ہے۔
"یہ اقدام کسی کے لیے بھی حیران کن نہیں ہونا چاہیے۔ امریکہ ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کے خلاف اس طرح کے اقدامات کرتا ہے اور کر رہا ہے۔"
فورم