اسلام آباد —
دہشت گردی اور دیگر سنگین جرائم سے متعلق مقدمات سے نمٹنے کے لیے خصوصی عدالتوں کے قیام اور قوانین میں سختی کے ساتھ ساتھ مبصرین و ماہرین کے بقول ججوں اور استغاثہ کی تربیت کے بغیر شدت پسندی کے خلاف جنگ میں متعین کردہ اہداف کا حصول مشکل ہوگا۔
ملک میں جاری مختلف اشکال کی شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے سرکاری حکام کے مطابق وزیر اعظم کی تجویز پر صدر ممنون حسین نے ایک آرٹینس جاری کیا ہے جس کے تحت ملک میں قانون کے بھرپور و موثر استعمال سے ریاست کی عمل داری قائم کی جائے گی اور دہشت و خوف پھیلانے والوں کو غیر ملکی دشمن کے طور پر نمٹا جائے گا۔
ماضی میں بھی انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت مقدمات میں جلد فیصلے کرنے کی عرض سے خصوصی عدالتیں بنائی گئیں مگر سینئیر وکیل طارق محمود کا کہنا ہے کہ وہ زیادہ کامیاب نا رہیں کیوں کہ تشدد یا دیگر جرائم کو دہشت گردی کے زمرے میں شامل کر دیا گیا تھا۔
’’عدالتوں کو پہلے سمجھنا پڑے گا کہ دہشت گردی ہے کیا۔ کسی شخص کا دوسرے کے منہ پر تیزاب پھینک دینا دہشت گردی نہیں بلکہ دو افراد کے درمیان تنازع ہے۔ دہشت گردی تو وہ ہے جس کی وجہ سے ہماری ریاست کو بہت زیادہ پریشانی ہے۔‘‘
صدارتی دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ نیا قانون بین الاقوامی معیار کے مطابق بنایا گیا ہے جس میں سنگین جرائم اور دہشت گردی کے خلاف آپریشن کرنے والے سیکورٹی اہلکاروں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا جبکہ ایسے مقدمات کے لیے خصوصی عدالتوں کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔
مبصرین اس نوعیت کی سخت قانون سازی کو وقت کی ضرورت گرداتنے ہیں تاہم بعض کا کہنا ہے کہ حکومت کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو زیادہ اختیارات دیتے ہوئے ان کے غلط استعمال اور انسانی حقوق کی خلاف وزیوں کے امکانات دور کرنے کے لیے بھی اقدامات کرنے چاہیں۔
طارق محمود پاکستان کی انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی کے رکن بھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کو لاحق مختلف اقسام کی شدت پسندی کے مسئلے کے حل کے لیے یہ نیا قانون شاید کافی نا ہو اور مختلف علاقوں کے حالات و واقعات کے مطابق قوانین مرتب کرنے کی ضرورت پڑے۔
’’بلوچستان میں اب امن و امان کی صورت حال انسرجنسی سے جڑی ہوئی ہے۔ اسے ہمیں مختلف طریقے سے نمٹنا ہے۔ وہاں یہ قانون شاید کام نا کر سکے۔ کراچی کے لیے الگ پیمانہ چاہیے اور پھر وہ دہشت گردی ہے جس کی وجہ سے ریاست اسٹیک پر لگی ہوئی ہے۔ ان سب کے ساتھ ہم نے مختلف طریقے سے ڈیل کرنا ہے۔‘‘
اگرچہ آرڈینس کا مسودہ سرکاری طور پر جاری نہیں کیا گیا ہے تاہم صدارتی بیان کے مطابق اس میں سنگین جرائم کے مقدمات کے جلد اندراج اور تحقیقات کے لیے علیحدہ پولیس اسٹیشن جبکہ خطرناک مجرموں کے لیے الگ جیل بھی بنائیں جائیں گی۔
گزشتہ سال کے اواخر میں ملکی قوانین سخت بناتے ہوئے انٹیلی جنس ایجنسیوں اور دیگر تحقیقاتی اداروں کو مشتبہ افراد کی ای میلز اور ایس ایم ایس وغیرہ کی نگرانی کا نا صرف اختیار دیا گیا بلکہ قانون میں یہ بھی کہا گیا کہ ان سے حاصل ہونے والی معلومات کو عدالت میں بطور شواہد تسلیم بھی کیا جائے گا۔
طارق محمود کا کہنا تھا کہ زیادہ تر ججوں اور استغاثہ کو جدید آلات یا ٹیکنالوجی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں جو کہ ایسے قوانین کی افادیت کو کم کر سکتا ہے۔
’’اس قسم کی انفارمیشن میں رد بدل کی جا سکتی ہے۔ تو اگر جج یا استغاثہ کو اس بات کا پتہ نہیں تو وہ یہ تمیز نا کر سکیں گے کہ جو شواہد ان کے سامنے ہیں وہ درست ہیں یا نہیں۔ تو پہلے آپ ان کی تربیت کریں۔‘‘
گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 40 ہزار پاکستانی ہلاک ہوچکے ہیں اور ملک کی معیشت کو سرکاری حکام کے مطابق اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ نواز حکومت کے اعلیٰ عہدیدار کہہ چکے ہیں کہ اس خون ریز دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سلامتی سے متعلق پالیسی ترتیب دی جا رہی ہے۔
ملک میں جاری مختلف اشکال کی شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے سرکاری حکام کے مطابق وزیر اعظم کی تجویز پر صدر ممنون حسین نے ایک آرٹینس جاری کیا ہے جس کے تحت ملک میں قانون کے بھرپور و موثر استعمال سے ریاست کی عمل داری قائم کی جائے گی اور دہشت و خوف پھیلانے والوں کو غیر ملکی دشمن کے طور پر نمٹا جائے گا۔
ماضی میں بھی انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت مقدمات میں جلد فیصلے کرنے کی عرض سے خصوصی عدالتیں بنائی گئیں مگر سینئیر وکیل طارق محمود کا کہنا ہے کہ وہ زیادہ کامیاب نا رہیں کیوں کہ تشدد یا دیگر جرائم کو دہشت گردی کے زمرے میں شامل کر دیا گیا تھا۔
’’عدالتوں کو پہلے سمجھنا پڑے گا کہ دہشت گردی ہے کیا۔ کسی شخص کا دوسرے کے منہ پر تیزاب پھینک دینا دہشت گردی نہیں بلکہ دو افراد کے درمیان تنازع ہے۔ دہشت گردی تو وہ ہے جس کی وجہ سے ہماری ریاست کو بہت زیادہ پریشانی ہے۔‘‘
صدارتی دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ نیا قانون بین الاقوامی معیار کے مطابق بنایا گیا ہے جس میں سنگین جرائم اور دہشت گردی کے خلاف آپریشن کرنے والے سیکورٹی اہلکاروں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا جبکہ ایسے مقدمات کے لیے خصوصی عدالتوں کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔
مبصرین اس نوعیت کی سخت قانون سازی کو وقت کی ضرورت گرداتنے ہیں تاہم بعض کا کہنا ہے کہ حکومت کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو زیادہ اختیارات دیتے ہوئے ان کے غلط استعمال اور انسانی حقوق کی خلاف وزیوں کے امکانات دور کرنے کے لیے بھی اقدامات کرنے چاہیں۔
طارق محمود پاکستان کی انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی کے رکن بھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کو لاحق مختلف اقسام کی شدت پسندی کے مسئلے کے حل کے لیے یہ نیا قانون شاید کافی نا ہو اور مختلف علاقوں کے حالات و واقعات کے مطابق قوانین مرتب کرنے کی ضرورت پڑے۔
’’بلوچستان میں اب امن و امان کی صورت حال انسرجنسی سے جڑی ہوئی ہے۔ اسے ہمیں مختلف طریقے سے نمٹنا ہے۔ وہاں یہ قانون شاید کام نا کر سکے۔ کراچی کے لیے الگ پیمانہ چاہیے اور پھر وہ دہشت گردی ہے جس کی وجہ سے ریاست اسٹیک پر لگی ہوئی ہے۔ ان سب کے ساتھ ہم نے مختلف طریقے سے ڈیل کرنا ہے۔‘‘
اگرچہ آرڈینس کا مسودہ سرکاری طور پر جاری نہیں کیا گیا ہے تاہم صدارتی بیان کے مطابق اس میں سنگین جرائم کے مقدمات کے جلد اندراج اور تحقیقات کے لیے علیحدہ پولیس اسٹیشن جبکہ خطرناک مجرموں کے لیے الگ جیل بھی بنائیں جائیں گی۔
گزشتہ سال کے اواخر میں ملکی قوانین سخت بناتے ہوئے انٹیلی جنس ایجنسیوں اور دیگر تحقیقاتی اداروں کو مشتبہ افراد کی ای میلز اور ایس ایم ایس وغیرہ کی نگرانی کا نا صرف اختیار دیا گیا بلکہ قانون میں یہ بھی کہا گیا کہ ان سے حاصل ہونے والی معلومات کو عدالت میں بطور شواہد تسلیم بھی کیا جائے گا۔
طارق محمود کا کہنا تھا کہ زیادہ تر ججوں اور استغاثہ کو جدید آلات یا ٹیکنالوجی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں جو کہ ایسے قوانین کی افادیت کو کم کر سکتا ہے۔
’’اس قسم کی انفارمیشن میں رد بدل کی جا سکتی ہے۔ تو اگر جج یا استغاثہ کو اس بات کا پتہ نہیں تو وہ یہ تمیز نا کر سکیں گے کہ جو شواہد ان کے سامنے ہیں وہ درست ہیں یا نہیں۔ تو پہلے آپ ان کی تربیت کریں۔‘‘
گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 40 ہزار پاکستانی ہلاک ہوچکے ہیں اور ملک کی معیشت کو سرکاری حکام کے مطابق اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ نواز حکومت کے اعلیٰ عہدیدار کہہ چکے ہیں کہ اس خون ریز دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سلامتی سے متعلق پالیسی ترتیب دی جا رہی ہے۔