پاکستان میں ڈیجیٹل پلیٹ فارم چاہے کتنے ہی مقبول کیوں نہ ہوں ناظرین زیادہ تر ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ڈرامے دیکھنا پسند کرتے ہیں۔مقامی ڈراموں کی مقبولیت سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ سماجی مسائل اور حقیقت سے قریب تر کہانیوں کی وجہ سے بے حد پسند کیے جاتے ہیں۔
ٹیلی ویژن پر بہت سے ایسے ڈرامے نشر کیے گئے ہیں جن کی کہانی ناول سے ماخوذ ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ منفرد کہانیاں ناظرین کی توجہ مبذول کرانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ اردو ادب کا حصہ ہونے کی وجہ سے ان ڈراموں کے ساتھ ساتھ ان کے 'سورس مٹیریل' یعنی افسانے اور ناولوں کو بھی ایک نئی زندگی ملی ہے جس کے لوگوں نے ان کتابوں کا بھی رخ کیا ہے۔
گزشتہ دہائی میں بھارتی ٹی وی ڈراموں کا راج ختم کرنے کے لیے جن پاکستانی ڈراموں نے اہم کردار ادا کیا ان میں 'ہم سفر'، 'میری ذات زرہ بے نشان'، 'داستان'، 'شہر ذات'، 'متاعِ جان ہے تو'، 'دیارِ دل' ، 'بن روئے'، 'یقین کا سفر' اور دیگر شامل تھے۔ یہ تمام ڈرامے ہی ناولوں پر مبنی تھے۔
معروف ناول نگار عمیرہ احمد کا دو برس قبل نشر ہونے والا ڈرامہ 'الف' ہو یا حال ہی میں مقبول ہونے والاڈرامہ 'ہم کہاں کے سچے تھے' یا پھر ہاشم ندیم کا کامیاب ڈرامہ'پری زاد'۔ ان تمام ڈراموں نےریٹنگ کے ساتھ ساتھ پسندیدگی کے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔
ہاشم ندیم کے ہی ناول 'خدا اور محبت' کو جیو انٹرٹینمنٹ نے ایک نہیں بلکہ تین مرتبہ مختلف انداز میں پیش کیاہے۔
رواں برس بھی کرنل زیڈ آئی فرخ کی کتاب 'بچھڑ گئے' سے ماخوذ ڈرامہ 'جو بچھڑ گئے' پیش کیا گیا جب کہ پروفیسر سید سجاد حسین کی کتاب 'دی ویسٹس آف ٹائم' پر مبنی ڈرامہ 'خواب ٹوٹ جاتے ہیں' کو سانحہ مشرقی پاکستان کے 50 برس مکمل ہونے کے موقع پر ٹی وی پر نشر کیا گیا تھا۔
ان دونوں ڈراموں میں اداکاری اور ہدایت کاری کے ساتھ ساتھ کہانی اور مکالموں کو بھی خوب داد ملی تھی جو عام ڈراموں سے ہٹ کر اور ادبی روایت سے زیادہ قریب تھی۔
ناول پر مبنی ڈراموں سے پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز
سن 1963 میں جب پاکستان میں ٹیلی ویژن کی نشریات کا آغاز ہوا تب ریڈیو کو ملک بھر میں تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ ایسے میں ٹیلی ویژن کو عوام میں اپنی جگہ بنانے کے لیے ڈراموں کا سہارا لینا پڑا جس میں زیادہ تر ڈراموں کو ناولوں اور مختصر کہانیوں سے ڈرامائی شکل دے کر پیش کیا گیاتھا۔
پاکستان میں ٹیلی ویژن نے اپنا آغاز ہی مزاحیہ، تاریخی اور سماجی ڈراموں سے کیا تھا ۔آج بھی چار سے پانچ دہائیاں گزر جانےکے باوجود پاکستان ٹیلی ویژن نیٹ ورک (پی ٹی وی) پر نشر ہونے والے ڈرامے دیکھنے والوں کے ذہنوں میں نقش ہیں۔
معروف مصنف، شاعر و ہدایت کار ایوب خاور کہتے ہیں پی ٹی وی کو عوام میں مقبول بنانے میں سب سے بڑا ہاتھ ڈرامے کا تھا اور ڈرامے کی کامیابی کے پیچھے وہ پڑھے لکھے لوگ تھے جن کا سب کچھ لٹریچر تھا۔
چار دہائیوں تک پی ٹی وی سے وابستہ رہنے والے ایوب خاور نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پی ٹی وی کے شروع کے دنوں میں جو پروڈیوسر یا ڈائریکٹر تھے ان کا ایک مطالعہ اور نقظہ نظر ہوتا تھا جب کہ وہ پروفیشنل ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی فیلڈ کے ماہر بھی تھے۔
ان کے بقول ریڈیو پاکستان سے آغا ناصر اور اسلم اظہر جیسے لوگوں کا نام لیے بغیر ڈراموں کی بات کرنا ناممکن ہے۔ ان دونوں افراد نے صرف پی ٹی وی کو ڈرامہ ہی نہیں بلکہ پاکستانی کلچر دیا۔
ایوب خاور نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان اور بھارت میں ڈرامے کی روایت کو شروع کرنے میں ریڈیو کا بہت بڑا ہاتھ تھا لیکن سننے والے میڈیم سے دیکھنے والے میڈیم میں اسے مقبول بنانے میں لٹریچر کا بہت اہم کردار ہے۔
مصنف کے مطابق جب ریڈیو پر ڈرامے ہوا کرتے تھے تو وہ اسٹیج سے اڈاپٹ (کسی اور میڈیم سے ماخوذ کہانی) ہوا کرتے تھے اور جب ٹی وی پر ڈراموں کا آغاز ہوا تو انہوں نے ریڈیو کا فارمیٹ اپنایا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 70 کی دہائی میں پی ٹی وی پر اوریجنل ڈرامے آنے کے بعد بھی ڈرامائی تشکیل دے کر سماجی اور تاریخی ادب کو اسکرین پر لانے کا سلسلہ ختم نہیں ہوا جو خوش آئند ہے۔ تاہم اڈاپٹیشن کا سلسلہ پی ٹی وی کے زوال اور پرائیوٹ پروڈیوسروں کے آنے کے بعد ختم ہوا۔
'خدا کی بستی 'سے شروع ہونے والا سلسلہ آج بھی جاری
انہوں نے بتایا جب ٹی وی پر 'خدا کی بستی' پیش کیا گیا تو ہم نے پہلی مرتبہ سڑکیں سنسان ہوتے دیکھی تھیں۔ وہ ڈرامہ شوکت صدیقی کے مشہور ناول پر مبنی تھا اور اس نے پسندیدگی کےتمام ریکارڈ توڑے تھے۔ اس سے قبل بھی مختلف ناولوں اورافسانوں کی کہانیوں سے متاثر ہوکر کئی ٹی وی ڈرامے بنے جنہوں نے آنے والی نسلوں کےذہنوں پر گہرا اثر چھوڑا۔
معروف ہدایت کار ایوب خاور کا کہنا تھا کہ وہ خود کو اس لیے خوش نصیب سمجھتے ہیں کہ پہلے انہیں احمد ندیم قاسمی اور پھر مشہور بھارتی شاعر و ادیب گلزار کی کہانیوں کو اسکرین پر لانے کا موقع ملا۔
پی ٹی وی سے نشر ہونے والی ''قاسمی کہانی' کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہون نے کہا کہ وہ سیریز بھارت میں گلزار صاحب کی نظر سے گزری جس کے بعد انہوں نےمجھےفون کرکے اپنی کہانیاں کرنے کی اجازت دی۔بعدازا ں ایک نجی ٹی وی چینل کے لیے 'گلزار کلاسکس ' بنائی جنہیں لوگوں نے خوب پسند کیا ۔
جب جیمز بانڈ پر فلمیں آج تک بن سکتی ہیں تو ابنِ صفی کے کرداروں پر کیوں نہیں؟
ہدایت کار احتشام الدین سمجھتے ہیں کہ ہر معاشرے میں اڈاپٹیشن بہت ضروری ہوتی ہے کیوں کہ جب ادب سے چیزیں نکال کر ڈرامے یا فلم کی صورت میں پیش کی جاتی ہے تو اس سے پڑھنے پڑھانے کا رجحان بڑھتا ہے۔
حال ہی میں نشر ہونے والی منی سیریز 'خواب ٹوٹ جاتے ہیں' کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ چار اقساط پر مبنی سیریز ڈھاکہ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سید سجاد حسین کی کتاب '''دی ویسٹس آف ٹائم' ' کے اقتباسات سے لے کربنائی، جس کے بعد لوگوں نے ان کی کتاب '' کی تلاش شروع کردی۔
احتشام الدین سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اگر 'اڈاپٹیشن' کا سلسلہ جاری رہتا تو آج بھی لوگ ناول پڑھ رہے ہوتے اور اس پر بات کررہے ہوتے۔
ان کے بقول، "'مغرب میں آج بھی اگر کوئی نئی کتاب آتی ہے تو فلم پروڈیوسر اس کے کاپی رائٹس حاصل کرلیتے ہیں، تاکہ اس پر کام کرسکیں، وہاں 40 فی صد سے زیادہ کام کسی نہ کسی کتاب پر ہی مبنی ہوتا ہے، ہر کہانی دوسری سے مختلف ہوتی ہے اور اس میں جذبات اور احساسات کوٹ کر بھرے ہوتے ہیں۔"'
فلم 'سپر اسٹار' کے ہدایت کار نے یہ بھی انکشاف کیا کہ جس سائنس فکشن ، تھرلر یا نارمل فکشن کو اب لوگ دیکھ کر پسند کرتے ہیں، وہی تو ابن صفی کی کہانیوں کی خاصیت تھی، صرف ایک فلاپ تجربے کے بعد ان کے کام کو دوبارہ پردے پر نہ پیش کرنا جاسوسی ادب سے بے وفائی کے مترادف ہے۔
ان کے مطابق انٹرنیشنل باکس آفس پر اس وقت سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلموں کی فہرست میں زیادہ تر وہی فلمیں ہیں جو کسی کتاب سے ماخوذ ہیں۔ ان کے بقول دورِ حاضر کی بڑی فلمیں یا تو کامک بکس پر مبنی ہیں یا پھر ایڈوینچر سے بھرپور کتابوں پر، جس میں ایونجرز فرنچائز، لورڈ آف دی رنگز، ہیری پوٹر اور اسپائیڈر مین نمایاں ہیں۔
احتشام الدین مزید کہتے ہیں مغرب نے تو آج تک اڈاپٹیشن کو نہیں چھوڑا، لیکن ہم نے چھوڑ کر غلط کیا۔ ہم ویسے تو ہر معاملے میں مغربی معاشرے کی تقلید کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ا س معاملے میں نہیں کی۔'