امریکی فوجی اہل کاروں نے کہا ہے کہ اُن کے پاس ایسی کوئی معلومات نہیں ہے جس کی تصدیق یا تردید کی جاسکے کہ ایک فضائی کارروائی کے دوران داعش کا لیڈر، ابو بکر البغدادی مارا گیا ہے۔
اس ضمن میں، غیر وابستہ ماہرین ان دہشت گرد سرغنے کی ہلاکت سے متعلق تیزی سے پھیلتی ہوئی خبروں پر تذبذب کا شکار ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ پہلی بار یہ خبر ہفتے کی رات گئے شام کے سرکاری تحویل میں کام کرنے والے ٹیلی ویژن پر نشر ہوئی۔ تاہم، برطانوی براڈکاسٹنگ کارپوریشن کی مانیٹرنگ سروس نے اتوار کو کہا کہ اُسے کسی ایسی رپورٹ کے بارے میں شامی ٹیلی ویژن یا شام کے سرکاری خبر رساں ادارے، صنعا پر ایسی کوئی اطلاع میسر نہیں ہوئی۔
اختتام ہفتہ، امریکی محکمہ دفاع کے ڈیوٹی پر تعینات ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن سے اِن رپورٹوں کے بارے میں پوچھا گیا ہے، لیکن اُن کے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں جس سے اس بات کی تصدیق یا تردید ہوتی ہو۔
برطانیہ میں قائم 'سیرئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس' نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ رقہ پرشدید فضائی بمباری کی گئی ہے، جہاں داعش نے گذشتہ ہفتے تیز کارروائی کی تھی۔ عمق خبر رساں ادارے، جسے کھلے عام خطے میں داعش کا ہتھکینڈا بتایا جاتا ہے، اُس کی ایک وڈیو دکھائی گئی ہے جس کے لیے بتایا جاتا ہے کہ یہ البغدادی کی لاش ہے۔
تاہم، برطانوی روزنامے 'دِی اسکاٹ مین' نے دہشت گردی کے موضوع پر تجزیہ کار، مائیکل اسمتھ کی ایک ٹوئیٹ کا حوالہ دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اُنھوں نے اس وڈیو کا مشاہدہ کیا ہے، اور سمجھتے ہیں کہ یہ البغدادی کی لاش نہیں ہے۔
اس سے قبل کئی بار ایسی خبریں گردش کرتی رہی ہیں، جن میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ داعش کا لیڈر ہلاک کیا گیا ہے؛ لیکن یہ دعوے غلط ثابت ہوئے۔