|
اسلام آباد _ افغانستان کی طالبان حکومت نے وزیر برائے مہاجرین خلیل الرحمان حقانی کی ایک خود کش حملے میں ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے اس واقعے کو ایک بڑا سانحہ قرار دیا ہے۔
خلیل الرحمان حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی کے بھائی اور طالبان حکومت کے موجودہ وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی کے چچا تھے۔
شدت پسند تنظیم 'داعش' نے حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس حملے سے طالبان کی سیکیورٹی کی حکمتِ عملی اور اندرونی کمزوریوں پر سوالات اٹھ سکتے ہیں اور افغانستان میں عدم استحکام میں اضافے کے خدشات مزید بڑھ سکتے ہیں۔
پشاور میں مقیم سینئر صحافی مشتاق یوسف زئی کا کہنا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے اہم رہنما کو ان کے دفتر کے احاطے میں مارا جانا ایک بڑی سیکیورٹی غفلت کی نشاندہی کرتا ہے۔
وائس اف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خلیل الرحمان حقانی پر حملے کے ذریعے حملہ آور یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ افغانستان ہرگز ایک محفوظ ملک نہیں ہے۔
مشتاق یوسف زئی کہتے ہیں کہ اس سے قبل بھی خلیل الرحمان حقانی پر کئی حملے ہوئے ہیں تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ طالبان کی اپنی حکومت میں مارا جانا اندرونی انٹیلی جینس کے بغیر ناممکن ہے۔
ان کے بقول، خلیل الرحمان حقانی دیگر وزرا کی نسبت ایک آسان ہدف سمجھے جاتے تھے، وہ اکثر اپنی وزارت کی نسبت لوگوں میں آسانی سے گھل مل جاتے تھے۔
واضح رہے کہ اگست 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان میں طالبان عہدیداروں پر یہ تیسرا بڑا حملہ تصور کیا جاتا ہے۔
اکتوبر 2022 میں کابل میں طالبان حکومت کی وزارتِ داخلہ کی ایک مسجد کے اندر ہونے والے بم دھماکے میں متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد مارچ 2023 میں طالبان حکومت کے صوبہ بلخ کے گورنر محمد داؤد وفا مزمل داعش خراسان کے ایک خود کش حملے میں مارے گئے تھے۔
'خلیل الرحمان کا قتل حقانی قبیلے کے لیے دھچکہ ہے'
خلیل الرحمان حقانی کو پاکستان میں گرفتار بھی کیا گیا تھا اور بعدازاں انہیں قیدیوں کے تبادلے میں رہائی ملی تھی۔
خلیل حقانی کی بدھ کو موت اس وقت ہوئی جب ایک خودکش حملہ آور وزارتِ مہاجرین کے دفتر میں داخل ہوا اور خود کو بارودی دھماکے سے اڑا دیا۔
سینئر تجزیہ کار اور افغان امور کے ماہر سمیع یوسف زئی خلیل الرحمان حقانی کی ہلاکت کو موجودہ وزیرِ داخلہ سراج الدین اور حقانی قبیلے کے لیے ایک بڑا دھچکہ قرار دیتے ہیں۔
ان کے بقول اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ایک ہی خاندان کے لیے دو اہم وزارتیں لینا خلیل الرحمان حقانی کا ہی کمال تھا اور وہ اپنے بھتیجے سراج الدین کے پیچھے سایہ کی طرح کھڑے تھے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگرچہ طالبان حکومت نے سیکیورٹی کی صورتِ حال کو قدرے مضبوط کیا ہے۔ تاہم ایسا بھی نہیں ہے کہ کسی انفرادی شخصیت کو ٹارگٹ نہیں کیا جا سکتا۔
سمیع یوسف زئی کے خیال میں اس حملے سے حملہ آور بنیادی طور پر سراج الدین حقانی کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
افغان امور کے ماہر کے بقول یہ بہت عجیب لگ رہا ہے کہ حقانی نیٹ ورک جو افغانستان میں بیس سالہ جنگ کے دوران خود کش بمباروں کی فیکٹری کے نام سے مشہور تھا، ان کے بانی رُکن خود ایک خود کش حملہ آور کا نشانہ بنتے ہیں۔
سمیع یوسف زئی کے بقول اس سے قبل سراج الدین حقانی کے چار بھائیوں کو بھی مختلف ادوار میں نشانہ بنایا گیا تھا۔
سمیع یوسف زئی کہتے ہیں کہ ماضی میں طالبان اس طرز کے گُر استعمال کرتے تھے۔ ایک ایسے ہی واقعے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ستمبر 2011 میں سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کو بھی اسی طرح نشانہ بنایا گیا تھا۔
فورم