کوئی خبر یا بات تیزی سے پھیل جائے تو اس کے لیے اردو میں ایک ضرب المثل ہے کہ فلاں بات 'جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی'۔یہ ضرب المثل دراصل جنگلات میں ہونے والی آتش زدگی کے تیز رفتاری کا پتا دیتی ہے۔
عام طور پر جنگلات میں آگ لگنے کے جو اسباب بیان کیے جاتے ہیں ان میں سے خشک موسم، گرمی کی شدت یا انسانی غفلت وغیرہ بہت عام ہیں۔ اس کے علاوہ تیز ہواؤں کی وجہ سے اس کے پھیلاؤ کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ جنگلات میں بڑے پیمانے پر آگ لگنے کے واقعات میں ماحولیاتی عوامل کا کردار بنیادی ہے اور یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے بلوچستان میں کوہِ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں شیرانی کے علاقے میں چلغوزے کے درختوں میں لگنے والی آگ کے بعد پاکستان میں بھی اس مسئلے کے اسباب اور تدارک زیرِ بحث ہیں۔
آگ کیوں لگتی ہے؟
پاکستان کی وزارت برائے ماحولیاتی تغیرات کے مطابق ملک کے کل رقبے کا پانچ فی صد سے بھی کم علاقے پر جنگلات پھیلے ہوئے ہیں۔ جنگلات کے رقبے میں ہر سال ڈیڑھ فی صد کمی واقع ہوتی ہے جس کی وجہ سے ملک میں حیاتیاتی تنوع خطرے میں ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
جنگلات کی کٹائی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ جنگلات میں لگنے والی آگ بھی جنگلات اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہے۔
پاکستان کے محکمۂ جنگلات کے سابق انسپکٹر جنرل اور ماحولیات اور حیاتیاتی تنوع میں ڈاکٹریٹ کے حامل ڈاکٹر سید محمود ناصر کا کہنا ہے کہ جنگل میں آگ اسی وقت لگتی ہے جب وہاں ایسا مواد ہو جو کسی چنگاری سے بھڑکنے والی آگ کا ایندھن بن سکتا ہو۔
عام طور پر خشک موسم، گرمی کی شدت جیسے فطری اسباب کو جنگل میں آگ لگنے کی بنیادی وجہ سمجھا جاتا ہے۔اس کے علاوہ جنگل میں پکنک کے لیے آنے والوں کے بنائے گئے الاؤ سے بچ جانے والے انگارے یا سگریٹ کی چنگاری سے بھڑکنے والی آگ بھی بڑے پیمانے پر جنگلات کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) چلغوزہ پروگرام کے کوآرڈینیٹر محمد یحیی موسی خیل کے مطابق بلوچستان کے علاقے شیرانی میں آگ لگنے کی وجہ ابھی تک سامنے نہیں آسکی ہے اور اس وقت آگ پر قابو پایا جارہا ہے۔
تاہم ماہرین کے مطابق جنگل میں آگ کی ابتدا کے اسباب مختلف ہوسکتے ہیں لیکن اس کے لیے تین بنیادی اجزا لازم ہیں۔ پہلی چنگاری، ایندھن اور ہوا یعنی آکسیجن۔
امریکہ کے محکمۂ زراعت کی ویب سائٹ پر دست یاب ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران جنگلات میں آگ لگنے کے 85 فی صد واقعات انسانوں کی وجہ سے ہوئے ہیں۔
ان میں جنگلات میں بھڑکائے گئے الاؤ، باقیات جلانے، آلات میں ہونے والی خرابی، سگریٹ بھجانے میں غفلت اور آتش زدگی کے ارادے سے آگ بھڑکانے کے واقعات شامل ہیں۔کئی مرتبہ آسمانی بجلی گرنے سے بھی جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات پیش آتے ہیں۔
ڈاکٹر سید محمود ناصر کے مطابق ان میں سے کسی بھی سبب سے بھڑکنے والی پہلی چنگاری کے بعد جنگل میں موجود درخت، گھاس، جڑی بوٹیاں، خشک پتے اسے ایندھن فراہم کرتے ہیں۔
اس طرح بھڑکنے والی آگ کتنی تیزی سے پھیلتی ہے اس کا انحصار اس پر بھی ہوتا ہے کہ جنگل میں موجود پیڑ پودوں میں نمی کی مقدار کتنی ہے۔ خشک سالی کے باعث جنگلات میں اگر درخت اور پودے سوکھ چکے ہیں تو ایسی صورت میں وہ تیزی سے آگ پکڑتے ہیں۔
ریوڑوں کی کمی
سابق انسپکٹر جنرل جنگلات ڈاکٹر سید محمود ناصر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جنگلات میں آتش زدگی کے واقعات بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں چرنے والے جنگلی جانوروں کے ریوڑ ختم ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ بلین ٹری منصوبے کے بعد ہمارے ہاں کئی بڑی چراگاہوں پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ دراصل چرنے والے چوپائے جنگلات میں سوکھی گھاس اور ایسا دیگر مواد ٹھکانے لگادیتے ہیں جو آگ کا ایندھن بن سکتے ہیں۔وہ بارشوں اور برفباری میں کمی کے باعث ہونے والی خشک سالی کو بھی جنگلات میں آتش زدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ قرار دیتے ہیں۔
آگ پھیلتی کیسے ہے؟
جنگل میں لگنے والی آگ کے پھیلاؤ کا تعلق موسم اور علاقے کے ماحول سے بھی ہوتا ہے۔
ڈاکٹر سید محمود ناصر کے مطابق کئی مرتبہ کسی جنگل میں ایسے پودے اور درخت پائے جاتے ہیں جو آگ تیزی سے پکڑتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی شدت میں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔
جنگل میں لگی آگ کے تیزی سے پھیلنے میں تیز ہوائیں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر تیز ہوا کے ساتھ آگ کو تازہ آکسیجن مل رہی ہو تو آگ کے شعلے مزید بلند ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ ہوا کے ساتھ اس کی چنگاریاں بھی تیزی سے اڑ کر دیگر مقامات پر آگ لگنے کا سبب بنتی ہیں۔
نقصان کی نوعیت کیا ہے؟
جنگلات میں آگ لگنے سے ماحولیات اور جنگلی حیات تو متاثر ہوتے ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ معاشی نقصانات اور روزگار کے مواقع بھی زد میں آتے ہیں۔
شیرانی میں چلغوزے کے جنگلات میں لگنے والی آگ کے بارے میں ایف اے او کے چلغوزہ پروگرام کے کوآرڈینیٹر محمد یحیٰ موسی خیل کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس اس علاقے کے سروے کرایا گیا تھا جس کے مطابق یہاں 650 سے 675 میٹرک ٹن چلغوزہ پیدا ہوتا ہے جس کی مالیت دو ارب 60 کروڑسےدو ارب 80 کروڑ روپے بتائی گئی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ جنگلات 26 ہزار ہیکٹر پر پھیلے ہوئے ہیں اور جس میں سے تقریبا آٹھ سے نو ہزار ہیکٹر پر آگ لگ چکی ہے۔ ایک ہیکٹر تقریبا ڈھائی ایکٹر کے برابر ہوتا ہے اس سے آپ آگ سے متاثر ہونے والے رقبے کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
انہوں ںے بتایا کہ ایف اے او کے کرائے گئے ایک سروے کے مطابق اس علاقے میں فی ہیکٹر تقریباً 1500 درخت تھے اور آگ سے متاثر علاقہ 8000 ہیکٹر ہوچکا ہے جس سے جلنے والے درختوں کی تعداد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جب کہ درختوں کو نقصان پہنچنے سے ان کی پیداوار سے منسلک کاروبار کی تباہی اور متاثر ہونے والے روزگار کے مواقع الگ سے ہیں۔
اقوامِ متحدہ پاکستان کی جاری کردہ ایک ویڈیو کے مطابق ایف اے او کے ماہر جنگلات فیض الباری کا کہنا ہے کہ چلغوزے کے ایک درخت سے سالانہ 20 سے 25 ہزار روپے کی پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ جو اس علاقے میں غریب آبادی کے گزر بسر کا اہم ترین ذریعہ ہے۔
جنگلی حیات
جنگلات میں آگ لگنے سے جنگلی حیات بھی شدید متاثر ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے کئی مرتبہ کسی علاقے کا پورا ماحولیاتی نظام بگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے۔
محمد یحیی موسی خیل کے مطابق شیرانی میں چلغوزے کے جنگلات میں کوہ سلیمان کے مارخور موجود تھے۔ 2014 میں کیے گئے ایک سروے میں ان کی تعداد 150 تھی جو شکار میں کمی کی وجہ سے یقینا کئی گنا بڑھ گئی ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ اس جنگل میں کالے ریچھ، لگڑ بھگے اور بھیڑیے بھی پائے جاتے تھے اور یہاں چیتے کے پنچوں کے نشان بھی دیکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد مقامی پرندوں کی بھی تھی۔
ان کا کہنا ہےکہ آگ لگنے سے جنگلی حیات کو درپیش خطرات کے حوالے سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ اپریل تک ان کی افزائشِ نسل شروع ہوجاتی ہے اور اب لینڈنگ کا سیزن ہوتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ لینڈنگ سیزن سے مراد یہ ہے کہ یہاں پائے جانے والے جانوروں اور پرندوں کے بچے بہت چھوٹے ہوں گے اور وہ اپنی مدد آپ کے تحت خوراک وغیرہ تلاش نہیں کرسکتے ہیں۔
’ایک ہزار سال لگیں گے‘
محمد یحیی موسی خیل کے مطابق شیرانی میں چلغوزے کے جنگلات میں ہرسال1100نئے درخت اگتے ہیں۔ ایف اے او نے چلغوزہ پروگرام کے تحت کنٹرولڈ طریقوں سے ان کی کاشت بڑھانے کے لیے کچھ اقدامات کیے تھے جس کے بعد ہر سال پیدا ہونے والے درختوں کی تعداد دوہزار تک جانے کی توقع کی جارہی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ آتش زدگی ایک بہت بڑا حادثہ ہے۔ ہم 10 سال سے جو کوششیں کررہے تھے انہیں ایک بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔
سابق آئی جی فاریسٹ محمود ناصر کا کہنا ہے کہ پائن یا چیڑ کے درختوں کی زمین میں موجود جڑیں متاثر نہ ہوں تو یہ دوبارہ بڑھنا شروع کردیتے ہیں۔
یحیی موسی خیل کا کہنا ہے کہ تاحال آگ پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے جس کی وجہ متاثر ہونے والے درختوں کی تعداد کا ٹھیک اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن وہ بتاتے ہیں کہ چلغوزے کے ایک درخت کو مکمل تیار ہونے میں 40 سال تک کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ حالیہ آتش زدگی سے جو نقصان ہوا ہے اس کا ازالہ ہونے میں ایک ہزار سال لگ جائیں گے۔
انہوں ںے مزید بتایا کہ فی الحال آگ پر قابو پانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس کے بعد ہی اس حادثے سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگانے کے لیے سروے کیے جائیں گے۔
عالمی سطح پر مسئلے کی شدت
عالمی ادارۂ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 1998 سے 2017 کے درمیان جنگلات کی آگ اور آتش فشانی سرگرمیوں کے نتیجے میں 62 لاکھ افراد متاثر ہوئے اور اس عرصے کے دوران 2400 ہلاکتیں بھی ہوئیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے اقوامِ متحدہ کے ادارے ورلڈ میٹرو لوجیکل آرگنائزیشن کے مطابق گزشتہ برسوں کے دوران سامنے آنے والی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گرمی میں اضافے سے جنگلات میں آتش زدگی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن نے 'سائنس بریف' کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ 116 سائنسی مقالے موسمیاتی تبدیلیوں اور جنگلات میں آگ بھڑکنے کے خطرات میں تعلق کو ثابت کرتے ہیں۔
رواں برس فروری میں اقوامِ متحدہ کے انوائرمنٹ پروگرام نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں جنگلات میں شدید آتش زدگی کے واقعات میں اضافہ ہوا۔
اس رپورٹ کے مطابق ان واقعات میں 2030 تک 14 فی صد اور 2050 تک 30 فی صد اور رواں صدی کے آخر تک 50 فی صد تک اضافہ ہوجائے گا۔
امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کی گزشتہ برس کی ایک رپورٹ کے مطابق لندن اسکول آف اکنامکس میں ماحولیاتی جغرافیہ کے شعبے سے وابستہ پروفیسر تھامس اسمتھ کا کہنا تھا کہ جنگلات میں آگ لگنے کے موسم طویل ہوتے جارہے ہیں۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ماہرین موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ خراب لینڈ مینجمنٹ کو بھی جنگلات میں آتش زدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ قرار دیتے ہیں۔
جنگلات میں لینڈ مینجمنٹ سے مراد یہ ہے کہ وہاں مردہ پودوں کی باقیات اور خشک پتوں کی صفائی کی جائے اور منصوبہ بندی کے ساتھ ایسے درختوں اور بوٹیوں کو تلف کر دیا جائے جو آگ کے تیزی سے پھیلاؤ کا باعث بنتے ہیں۔
حل کیا ہے؟
سابق آئی جی جنگلات ڈاکٹر سید محمود ناصر کا کہنا ہے کہ اب دنیا میں ’نیچر بیسڈ سلوشن‘ پر زور دیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت اگانے کی دوڑ میں کئی مرتبہ اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ وہ درخت کسی علاقے کے قدرتی ماحول سے کتنی ہم آہنگی رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپ کو زمین پر کہیں صحرا، کہیں جنگل اور کہیں صرف گھاس کے میدان نظر آتے ہیں۔ اس کا تعلق برسات اور برفباری سے ہے جس کا قدرت نے ایک نظام بنایا ہے۔ ہرجگہ سبزہ نہیں ہوسکتا کیوں کہ درختوں کے اگنے اور پرورش کے لیے پانی درکار ہوتا ہے۔
ان کے مطابق نئے جنگلات کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود جنگلات میں آتش زدگی کے واقعات روکنے کے لیے اس کے اسباب کا تدارک کرنا ہوگا۔ جنگلات میں پائی جانے والی سوکھی گھاس اور درختوں کی باقیات وغیرہ کی صفائی کے لیے انتظامات کرنا ہوں گے۔
ان کے مطابق جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات کا ایک بڑا سبب ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں اور اس سبب کے تدارک کے لیے وسیع پیمانے پر منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔