یادش بخیر! وہ بھی کیا دن تھے۔ جب ہم گاؤں میں رہا کرتے تھے۔ مئی جون کی گرمی میں چھٹیوں کا پورا پورا دن تالابوں میں گزر جاتا۔ گھنٹوں تیرنا، اچھلنا اور کودنا۔ والدین آوازوں پر آوازیں لگاتے مگر ہم بچے کہاں سنتے۔ کئی گھنٹے کے بعد جب باہر نکلتے تو پانی کے اثر سے ہاتھ پیر کی انگلیوں کے پور مانو خشک ہو جاتے۔
عام طور پر یہ بھی ہوتا کہ نمازِ ظہر کے بعد بہت سے بچے چادر پانی میں گیلی کرکے مسجد ہی میں اوڑھ کر پنکھے کے نیچے لیٹ جاتے اور قدرتی اے سی کا مزا لیتے۔ گھروں میں گھڑے رکھے ہوتے اور ان گھڑوں کے نیچے ریت کی دبیز تہہ ہوتی۔ ان گھڑوں کا پانی ٹھنڈا بھی ہوتا اور شیریں بھی۔
شدید گرمی میں لو سے بچنے کے انتظامات کیے جاتے۔ دالانوں میں چادریں تان دی جاتیں اور شام ہوتے ہی دروازوں کے باہر پانی کا چھڑکاؤ ہوتا تھا۔
پھر لگ بھگ 40 برس قبل ہم دہلی جیسے بڑے شہر میں آگئے۔ یہاں کے اور گاؤں کے موسم میں بہت فرق نظر آیا۔ یہاں گرمی سے نجات پانے کے لیے پنکھوں کے ساتھ ساتھ کولرز کا بھی انتظام تھا۔ جب کہ بعض گھروں میں خس کی ٹٹیاں بھی لگی ہوتی تھیں۔
اُس وقت دہلی میں بھی بہت سے گھروں میں گھڑے دکھائی دے جاتے تھے۔ گھڑے تو اب بھی نظر آ جاتے ہیں اور ان میں پانی نکالنے کے لیےٹوٹی بھی لگی ہوتی ہے لیکن اب ان کا استعمال بہت کم ہو گیا ہے۔ کمہاروں کی آمدنی گھٹ گئی ہے۔
دہلی میں چوں کہ تالابوں کی کمی ہے اس لیے بہت سے نوجوان مغل دور کی تعمیر کردہ باولیوں میں چھلانگ لگاتے تھے۔ بالخصوص حضرت نظام الدین اولیا کی درگاہ کے احاطے میں واقع باولی اور مہرولی کی باولی بہت مشہور تھیں۔
البتہ باولیوں میں ڈوب کر مرنے کے متعدد واقعات کے بعد بہت سی باولیوں میں نہانا اب ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔
مضافات کے ان گاؤوں میں جو بعد میں دہلی میں شامل کیے گئے، ہینڈ پمپ بھی گرمی سے نجات کا ایک ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ موسم بھی بدلا اور انداز بود و باش بھی اور لوگوں کی عادتیں اور مزاج بھی۔ شہری ترقی نے گرمی سے نجات کے وسائل و ذرائع بھی بدل دیے۔
اب تو پارکوں میں فوارے نصب کیے گئے ہیں اور تفریحی مقامات پر کشتی رانی کے لیے پول بنائے گئے ہیں جن کی گہرائی بمشکل دو تین فٹ ہوتی ہے۔ اب بہت سے بچے ان پولز میں تیر کر گرمی سے نجات پانے کی کوشش کرتے ہیں۔
آج سے 20، 25 برس قبل دہلی میں ائیر کولرز کے بازار ہوا کرتے تھے۔ موسمِ گرما کے آغاز سے مہینوں قبل کولرز کی فیکٹریوں میں سرگرمی بڑھ جاتی تھی اور اپریل کا مہینہ آتے آتے بازار کولرز سے پٹ جاتے تھے۔
کچھ لوگ اپریل، تو کچھ مئی میں پرانے کولرز کی صفائی کراتے یا نئے کولرز خرید کر لے آتے اور انہیں کھڑکیوں میں فٹ کر دیا جاتا تھا۔ بہت کم گھر ایسے نظر آتے جن کی کھڑکیوں میں کولر نہ لگے ہوں۔
جن کھڑکیوں میں کولر نہیں ہوتے وہ عام طور پر صبح و شام کھول دی جاتیں تاکہ ٹھنڈی ہوا اندر آسکے۔ اسی لیے ایل شیپ کے مکانوں کی بڑی اہمیت تھی تاکہ گھر میں دو اطراف سے ہوائیں آسکیں اور وینٹی لیشن بھی رہے۔
پہلے گھروں کی دیواریں موٹی ہوتی تھیں تاکہ وہ زیادہ گرم نہ ہوں اور باہر کی گرمی اندر نہ آسکے۔ لیکن اب چار انچ کی دیوار بننے لگی ہے جو فوراً گرم ہو جاتی ہے اور اس کی گرمی گھروں میں داخل ہوتی ہے۔
اب ترقیاتِ زمانہ نے سب کچھ تلپٹ کر دیا ہے۔ اب نہ وہ لوگ رہے، نہ لوگوں کی پرانی عادتیں، نہ پرانے قسم کے مکان اور نہ ہی گرمی سے نجات کے پرانے وسائل و ذرائع۔
پیسوں کی قدرے فراوانی نے کولرز کو گھروں سے بے دخل کر دیا۔ اب ان کی جگہ ایئر کنڈیشنرز نے لینی شروع کر دی۔ پہلے کسی محلے میں دو ایک اے سی نظر آجاتے تھے۔ ایک گھر میں ایک اے سی ہوتا اور وہ بھی سب سے بڑے کمرے یا ہال میں۔ اہل خانہ کا پورا وقت اسی ہال میں گزرتا۔ اسی میں اخبار پڑھے جاتے۔ اسی میں ٹیلی ویژن سیٹ لگا ہوتا۔ اسی میں کھانا کھایا جاتا اور پھر رات میں پورا گھر اسی میں سوتا بھی تھا۔
عجیب گہما گہمی ہوتی، جائے تنگ است و مردما بسیار کا عالم تو ہوتا لیکن اس طرح آپس میں محبت بھی بڑھتی تھی کیوں کہ تب تک نہ تو موبائل فونز کا اتنا چلن تھا اور نہ ہی پرائیویسی کا کوئی جھگڑا ہوا کرتا تھا۔
اسی دوران کولرز کی شکل و صورت بدلنے لگی۔ لوہے کے کولرز نے پلاسٹک کا لباس زیب تن کر لیا۔ اب خوبصورت کولرز بازاروں کی رونق بن گئے۔ ان کو لانے لے جانے میں بھی آسانی اور رکھنے میں بھی۔ پلاسٹک کے ان کولرز کو اندرونی کمروں میں بھی رکھا جا سکتا ہے۔
لیکن اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پلاسٹک کے کولرز کو کم عمر ملی۔ ان کی تعداد تو کچھ بڑھی ہے لیکن ان کا استعمال اب کم ہوتا جا رہا ہے۔ وجہ وہی اے سی کی تعداد میں اضافہ ہے۔ اب کولرز کے بازار اے سی کے بازار میں بدلتے جا رہے ہیں۔
کہتے ہیں کہ آمدن میں اضافے سے ضرورتیں اور خواہشیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ لہٰذا جب گنجائش نکلی تو ہر گھر میں ایئر کنڈیشنرز لگنے لگے۔ دہلی میں بہت کم ایسے گھر نظر آتے ہیں جن میں اے سی نہ ہو۔
اب ان کی تعداد تیزی سے بڑھنے بھی لگی ہےجس فیملی میں ذرا بھی استطاعت ہے وہاں ہر شخص کا کمرا الگ ہے اور ہر کمرے میں اے سی نصب ہے۔
اس کی ایک وجہ انسانوں کی بدلتی ہوئی عادتیں بھی ہیں۔ اب جہاں ایک طرف گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے وہیں لوگوں کی قوت برداشت بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ پہلے جب جسم سے پسینہ نکلتا تھا تو اچھا لگتا تھا۔ اس سے جسم ٹھنڈا بھی رہتا لیکن اب پسینہ نہ نکلنے پائے، اس کے انتظامات کیے جانے لگے ہیں۔
اب دن ہو یا رات، کسی بھی وقت آپ باہر نکلیں تو گھروں اور بازاروں و دکانوں میں نصب ائر کنڈیشنرز سے نکلنے والی گرم گرم ہوائیں آپ کا استقبال کرنے کو موجود ہوں گی۔ اس صورتِ حال نے دہلی کو گرم ہوا کے غبارے میں تبدیل کر دیا ہے۔
صرف دہلی ہی کیوں؟ اب تو پورا ملک گرم ہوا کا غبارہ بن گیا ہے۔ خاص طور پر شمالی بھارت اس وقت تپتی ہوئی بھٹی بنا ہوا ہے۔ انسان تو انسان چرند و پرند بھی بے حال ہیں۔ ایک خبر کے مطابق ملک میں کئی مقامات پر کولرز اور ایئر کنڈیشنرز میں سانپوں نے بسیرا کر لیا ہے۔ گویا انہوں نے بھی جائے پناہ تلاشنی شروع کر دی۔
سوشل میڈیا میں اڑیسہ کے سونپور کی ایک ایسی ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں ایک خاتون ایک کار کے بونٹ پر روٹی پکا رہی ہیں حالانکہ اس وقت وہاں درجۂ حرارت 40 ڈگری تک ہی تھا۔
لیکن اتوار کے روز دہلی، اترپردیش اور ہریانہ کے بعض علاقوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری تک پہنچ گیا۔ ایک اطلاع کے مطابق پڑوسی ملک پاکستان کے جیکب آباد میں اتوار کے روز درجہ حرارت 51 ڈگری ریکارڈ کیا گیا۔
بھارت میں عام طور پر مئی کے مہینے میں گرم لہر شروع ہوتی تھی لیکن رواں سال میں مارچ سے ہی گرم لہر کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اپریل کا مہینہ 122 برس میں گرم ترین مہینہ ثابت ہوا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مئی کے مہینے میں کچھ راحت ہے۔ محکمۂ موسمیات کے مطابق اگلے کچھ دن میں راحت ملنے کی امید ہے۔
ہم نے اس سلسلے میں جب ماہرین سے گفتگو کی تو انہوں نے بتایا کہ ماحولیات میں ہونے والی تبدیلی اس گرم لہر کی ایک بڑی وجہ ہے لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہر سال مارچ میں کچھ بارش ہو جایا کرتی تھی۔ رواں سال میں بارش نہیں ہوئی جس کی وجہ سے گرم لہر پہلے آگئی اور اب تک جاری ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بدلتے ہوئے موسم نے عوام کے انداز بود و باش کو بدلا تو عوام کے تبدیل شدہ طرز رہائش نے بھی موسم پر اثر ڈالا ہے۔
ان کے مطابق ایئر کنڈیشنرز کا استعمال بھی گرمی میں اضافے کا ایک سبب ہے۔ ایئر کنڈیشنرز گھر کے اندر کے موسم کو تو ٹھنڈا کر دیتے ہیں مگر باہر کے موسم کو گرم کر دیتے ہیں۔ ان سے نکلنے والی گرم ہوا گرمی کی شدت میں مزید اضافہ کر دیتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جس طرح پوری دنیا میں درجۂ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے اس کے پیشِ نظر یہ امید کم ہے کہ آنے والے سال کم گرم ہوں گے۔
سماجی ماہرین کہتے ہیں کہ انسان اور اس کی عادتیں وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ اس لیے گمان غالب ہے کہ آنے والے ایام میں ماحولیات میں ہونے والی تبدیلی انسانی طرز زندگی کو مزید بہت کچھ بدل کر رکھ دے گی۔