پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور دیگر تحقیقاتی اداروں کو ای میلز اور ایس ایم ایس کی نگرانی کا اختیار مل گیا ہے۔اس اختیار کے تحت انٹیلی جنس ایجنسیاں اور دیگر تحقیقاتی ادارے عدالت کی اجازت سےکسی بھی مشتبہ شخص کی ای میل اور ایس ایم ایس کی نگرانی کر سکیں گے۔
انہیں یہ اختیار منگل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانو ن و انصاف کی جانب سے دہشت گردوں ، مشکوک افراد کی نگرانی اور ان سے متعلق معلومات تک رسائی کیلئے ”فیئرٹرائل بل 2012ء “کی کثرت رائے سے منظوری کے بعد ملا ہے۔
بل کے تحت تحقیقاتی اداروں کا کوئی بھی افسر عدالت سے مشتبہ شخص کی نگرانی کی درخواست کرسکتا ہے اور اجازت ملنے پر انٹیلی جنس ایجنسیاں اور دیگر تحقیقاتی ادارے اس کی ای میل ، ایس ایم ایس ، انٹرنیٹ پروٹول ڈیٹیل ریکارڈ( آئی پی آر ڈی) اور موبائل فون کے ذریعے ہونے والی پیغام رسانی کی نگرانی کر سکیں گے۔ یہ قانون اندر ون و بیرون ملک مقیم تمام پاکستانیوں پر نافذ ہوگا۔
مقامی میڈیا سے نشر ہونے والی خبروں کے مطابق منگل کو قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کی چیئرپرسن نسیم چوہدری نے فیئر ٹرائل بل منظور کئےجانے کا اعلان کیا تو مسلم لیگ ن کی جانب سے شدید احتجاج اور تحفظات کا اظہار کیاگیا۔ ن لیگ کے مطابق اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ بل صرف دہشت گردوں کے خلاف استعمال ہو گا۔ اگر کوئی بچہ غلطی یا ناسمجھی سے کوئی ای میل کرتا ہے تو کا اس کا بھی ٹرائل ہو گا۔ کمیٹی اس حوالے سے ایک جائزہ کمیٹی بنائے تاکہ بل کا عام شہریوں کے خلاف غلط استعمال روکا جاسکے۔ ایم کیو ایم نے بھی بل پر اختلافی نوٹ چیئرپرسن کو دیا۔
یاد رہے کہ پاکستان میں ابھی تک تحقیقاتی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس خفیہ ذرائع سے شواہد حاصل کرنے کے عمل کو قانونی تحفظ حاصل نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اگر کسی کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے تو وہ غیر قانونی تصور کی جاتی ہے۔
اگر یہ بل پاس ہو جاتا ہے تو انٹیلی جنس ایجنسیاں اور تحقیقاتی ادارے بھی اس بات کے پابند ہو جائیں گے کہ وہ اپنی مرضی کے بجائے عدالت سے اجازت کے بعد کسی بھی شخص کی خفیہ نگرانی کریں۔
پاکستان میں رواں سال پانچ ستمبر کو وفاقی کابینہ نے اس بل کی منظوری دی تھی جس کے بعد یہ قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے پاس تھا۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے میڈیا کو بتایا ہے کہ فیئر ٹرائل بل دو ہزار بارہ قومی اسمبلی کے رواں سیشن میں پیش کر دیا جائے گا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ بل کی منظوری کے بعد ادارے شفاف انداز میں شواہد حاصل کر پائیں گے جنہیں عدالت میں شہادت کے طور پر پیش کیا جا سکے گا۔
انہیں یہ اختیار منگل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانو ن و انصاف کی جانب سے دہشت گردوں ، مشکوک افراد کی نگرانی اور ان سے متعلق معلومات تک رسائی کیلئے ”فیئرٹرائل بل 2012ء “کی کثرت رائے سے منظوری کے بعد ملا ہے۔
بل کے تحت تحقیقاتی اداروں کا کوئی بھی افسر عدالت سے مشتبہ شخص کی نگرانی کی درخواست کرسکتا ہے اور اجازت ملنے پر انٹیلی جنس ایجنسیاں اور دیگر تحقیقاتی ادارے اس کی ای میل ، ایس ایم ایس ، انٹرنیٹ پروٹول ڈیٹیل ریکارڈ( آئی پی آر ڈی) اور موبائل فون کے ذریعے ہونے والی پیغام رسانی کی نگرانی کر سکیں گے۔ یہ قانون اندر ون و بیرون ملک مقیم تمام پاکستانیوں پر نافذ ہوگا۔
مقامی میڈیا سے نشر ہونے والی خبروں کے مطابق منگل کو قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کی چیئرپرسن نسیم چوہدری نے فیئر ٹرائل بل منظور کئےجانے کا اعلان کیا تو مسلم لیگ ن کی جانب سے شدید احتجاج اور تحفظات کا اظہار کیاگیا۔ ن لیگ کے مطابق اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ بل صرف دہشت گردوں کے خلاف استعمال ہو گا۔ اگر کوئی بچہ غلطی یا ناسمجھی سے کوئی ای میل کرتا ہے تو کا اس کا بھی ٹرائل ہو گا۔ کمیٹی اس حوالے سے ایک جائزہ کمیٹی بنائے تاکہ بل کا عام شہریوں کے خلاف غلط استعمال روکا جاسکے۔ ایم کیو ایم نے بھی بل پر اختلافی نوٹ چیئرپرسن کو دیا۔
یاد رہے کہ پاکستان میں ابھی تک تحقیقاتی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس خفیہ ذرائع سے شواہد حاصل کرنے کے عمل کو قانونی تحفظ حاصل نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اگر کسی کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے تو وہ غیر قانونی تصور کی جاتی ہے۔
اگر یہ بل پاس ہو جاتا ہے تو انٹیلی جنس ایجنسیاں اور تحقیقاتی ادارے بھی اس بات کے پابند ہو جائیں گے کہ وہ اپنی مرضی کے بجائے عدالت سے اجازت کے بعد کسی بھی شخص کی خفیہ نگرانی کریں۔
پاکستان میں رواں سال پانچ ستمبر کو وفاقی کابینہ نے اس بل کی منظوری دی تھی جس کے بعد یہ قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے پاس تھا۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے میڈیا کو بتایا ہے کہ فیئر ٹرائل بل دو ہزار بارہ قومی اسمبلی کے رواں سیشن میں پیش کر دیا جائے گا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ بل کی منظوری کے بعد ادارے شفاف انداز میں شواہد حاصل کر پائیں گے جنہیں عدالت میں شہادت کے طور پر پیش کیا جا سکے گا۔