فیض احمد فیض کی سو ویں سالگرہ کےسلسلے کی تقریبات ان دنوں پاکستان اور بھارت میں جاری ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک تقریب واشنگٹن ڈی سی کے مضافات میں بھی منعقد کی گئی جہاں فیض کے چاہنے والوں نےانہیں اپنے اپنے انداز میں خراج عقیدت پیش کیا۔
فیض احمد فیض کی پیدائش کے صد سالہ جشن کی اس محفل کا اہتمام واشنگٹن میں قائم ایک ادبی تنظیم حلقہ ارباب ذوق نے کیا تھا۔
اس موقع پرعابدہ رپلی نے حاضرین کو بتایا کہ فیض کی سویں سالگرہ ہم نے بڑے اہتمام سے منائی ہے کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ فیض بہت بڑے قومی شاعر ہیں جنھوں نے غالب اور اقبال کے بعد نہ صرف لوگوں کے ذہنوں اور دلوں کو بلکہ روحوں کو بھی چھوا ہے۔
اس تقریب میں جہاں نوجوان فنکاروں نے فیض کی مشہور غزلیں گا کر انھیں خراج عقیدت پیش کیا وہیں ان مقامی صحافیوں نے بھی جنہیں فیض کے ساتھ کچھ وقت گذارنے کاموقع ملاتھا اور ان کی یادوں کا ذکر کیا۔
انور اقبال کا کہنا تھا کہ فیض سے پہلی ملاقات کے نقش فریادی تھے، دوسری دست صبا کے ہمراہ ہوئی اور تیسری ان دنوں جب وہ قید میں زنداں نامہ لکھ رہے تھے۔ اور جب میں نے صحافت شروع کی تو دست تہہ سنگ کا درد بھی محسوس کیا جو نسخہ وفا تک ساتھ رہا۔
ڈاکٹر ستیا پال آنند شمالی امریکہ میں اردو ادب کی ایک جانی پہچانی اور معتبر شخصیت ہیں۔ انھوں نے فیض کی شاعری اور ان سے ملاقاتوں کو حال بیان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فیض ایک عہد ساز شاعر اور متاثر کن شخصیت کے مالک تھے۔
تقریب کی صدارت مقامی صحافی اور ادبی شخصیت اکمل علیمی نے کی ۔ انھوں نے کہا کہ فیض ایک ایسے شاعر تھے جنھوں نے آج کی دنیا کے حالات کی تصویر کشی کئی عشرے پہلے کردی تھی ۔ ان کا کہناتھا کہ تیونس ہو، یمن یا مصر ، میں سمجھتا ہوں کہ یہ موضوعات فیض کی توجہ حاصل کرتے اور ان کے بارے میں ضرور کچھ لکھتے۔
تقریب میں فیض کا کلام پیش کرنے والے والے فنکاروں نے کہا کہ فیض کو گانا مشکل تو ہے لیکن ان کی شاعری نوجوان نسل کے لیے ایک امید کی کرن ہے۔
عمر وقارکا کہناتھا کہ ایک دن میں مسلم دنیا کے موجودہ حالات کے بارے میں پریشان تھا۔اور میرے ذہن میں فیض آئے کہ کیسے فیض نے قید خانے میں بیٹھ کر اتنی خوبصورت شاعری تخلیق کی۔ کچھ افسردہ بھی لیکن زیادہ تر جذباتی۔ تو میرے لیے یہ امید کی کرن ثابت ہوئی کی چاہے حالات کتنے ہی خراب کیوں نا ہوں روشنی اندھیروں کے ساتھ ہی آتی ہے۔
اسد کمال کا کہنا تھا کہ فیض حالات سے مخاطب ہوتے ہیں۔ جس کی زبردست مثال ہے، ہم دیکھیں گے ۔ تو آج اگر آپ دنیا کی سیاست پر نظر ڈالیں تو جو انقلابات آپ کو نظر آرہے ۔ یہ غزل ایک ایسی تصویر کشی ہے کہ انھوں نے کتنی دیر پہلے اس چیز کو محسوس کرلیا تھا۔