سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کے فیصلے کے تناظر میں اضافی نظر ثانی درخواست دائر کردی ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ ان کا استعفیٰ چاہتے تھے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنی درخواست میں وزیراعظم عمران خان اور اپنا موازنہ کرتے ہوئے اپنی جائیدادوں کی تفصیل دی ہے جب کہ وزیراعظم عمران خان کی کابینہ میں شامل وزرا فیصل واوڈا، زلفی بخاری، شہزاد اکبر، چیئرمین سی پیک اتھارٹی لیفٹننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ، اور دیگر کی جائیدادوں پر سوال اٹھایا ہے۔
نظرِ ثانی درخواست میں جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ مجھے علم نہیں کہ ان جائیدادوں کو ان وزرا نے ظاہر کیا ہے یا نہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے مؤقف اپنایا کہ ان کی طرف سے دائر کردہ نظرِ ثانی درخواست پر عدالتی کارروائی براہ راست ٹی وی چینلز پر نشر کرنے کا حکم دیا جائے اور جسٹس مقبول باقر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کو بھی نظرثانی بینچ کا حصہ بنایا جائے۔
جسٹس عیسیٰ کی اضافی نظر ثانی درخواست کے 62 نکات ہیں جن کے آخر میں عدالت سے نو نکات پر مشتمل استدعا بھی کی گئی ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ اس سے قبل سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی درخواست جمع کروا چکے ہیں۔ لیکن اب انہوں نے یہ اضافی درخواست دائر کی ہے جو سپریم کورٹ کو بھیجے جانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے میڈیا کو بھی جاری کردی ہے۔
سپریم کورٹ میں جسٹس فائز عیسی کیس میں نظرثانی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی گئی ہیں جس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ آٹھ دسمبر کو کرے گا۔ اس کیس میں جسٹس فائز عیسیٰ، سیرینا عیسیٰ اور بار کونسلز نے نظرثانی دراخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔
خیال رہے کہ رواں سال جون میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس خلافِ قانون قرار دیا تھا۔
ایف بی آر کو کنٹرول کرنے کا الزام
جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنی درخواست کے پیرا تین میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے متعلق سوال اٹھایا اور کہا کہ کمشنر ایف بی آر ذوالفقار احمد نے میری اہلیہ اور بچوں کو نوٹسز جاری کیے۔
اُن کے بقول ذوالفقار احمد نے غیرقانونی طور پر اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے یہ تحقیقات کیں، ایف بی آر کمشنر اس ریفرنس کے فائل ہونے سے قبل ہی غیرقانونی تحقیقات کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی معلومات کے باعث اپنا ذہن بنا چکے تھے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے الزام عائد کیا کہ ذوالفقار احمد کا اس کیس کی تحقیقات کے لیے چناؤ بدنیتی پر مبنی تھا۔
اُن کے بقول ان کی اہلیہ سیرینا عیسیٰ کو ایک بار بھی شنوائی کا موقع نہیں دیا گیا۔ اس کیس میں اہلیہ اگرچہ پارٹی نہیں تھیں لیکن ایف بی آر کے ذریعے انہیں بھی ناکردہ جرم کی سزا دی گئی۔
فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت نے ایف بی آر سے اس ضمن میں رپورٹ طلب کی تھی لیکن ایف بی آر نے کمشنر ذوالفقار احمد کی کی گئی تحقیقات کو ہی رپورٹ سمجھا اور وہ عدالت میں جمع کروائی گئی۔
اُن کا کہنا تھا کہ نوٹسز گھر کے دروازے پر چسپاں کرکے گھر کے ملازمین، مالی، گارڈ اور صفائی کرنے والوں کے سامنے انہیں شرمندہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے چیئرمین ایف بی آر مسز نوشین امجد کو ہٹانا بھی اسی معاملے کا حصہ قرار دیا اور کہا کہ انہیں صرف چار ماہ بعد ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ جس کے بعد جاوید غنی کو چیئرمین ایف بی آر بنایا گیا۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر اور وزیرِ قانون فروغ نسیم نے غیرقانونی طور پر ان کا اور ان کی اہلیہ کا ایف بی آر کا ریکارڈ حاصل کیا۔
جسٹس فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ انہیں ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے ایف بی آر کے محکمے کو کنٹرول اور استعمال کیا گیا۔ اُنہوں نے الزام لگایا کہ ایف بی آر کا جو بھی چیئرمین آزادانہ طور پر ان کے معاملہ کو دیکھتا تھا اسے ہٹا دیا جاتا تھا۔
اُن کے بقول چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ اس کیس میں انہیں یا ان کی اہلیہ کو فراہم نہیں کی جاتی تھی لیکن میڈیا کو لیک کر دی جاتی تھی۔
'آزاد عدلیہ کی قیمت پر ایگزیکٹو کو مزید طاقت ور بنایا گیا'
جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنی درخواست کے ایک پیرا گراف میں لکھا کہ ان کی اہلیہ کو سزا اور ان کے بطور جج رہنے کے معاملے پر ایف بی آر کی رپورٹ سے مشروط کردیا گیا جو ان کے بقول ایگزیکٹو کے براہ راست کنٹرول میں تھا۔
اُن کے بقول عدلیہ کی آزادی آئین میں لکھی ہوئی ہے لہذا اس حکم سے عدلیہ کی آزادی پر حرف آئے گا۔
جسٹس فائز عیسی ٰ نے لکھا کہ عدالتی فیصلے کے مطابق اس ریفرنس کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد اس معاملے میں ایف بی آر کی رپورٹ کو شامل نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ ایسے فیصلے سے آزاد عدلیہ کے ججز کو ایگزیکٹو کے فیصلوں کے تابع کیا جاسکتا ہے جو پورے عدالتی نظام کے لیے خطرے کا باعث ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنی درخواست میں کہا کہ حکمران جماعت پی ٹی آئی اور ان کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم نے فیض آباد دھرنا کیس میں نظرِثانی درخواستوں میں انہیں نشانہ بنایا اور صاف الفاظ میں لکھا کہ میں نے 'مس کنڈکٹ' کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے مجھے جج رہنے کا کوئی حق نہیں۔
دونوں جماعتوں کی طرف سے جو زبان استعمال کی گئی وہ ریکارڈ کے برخلاف ہے۔ دونوں جماعتوں کی نظرثانی درخواست رجسٹرار دفتر کے اعتراض کے بعد واپس لے لی گئی تھی لیکن اس درخواست سے ان دونوں جماعتوں کے ذہن کا اندازہ ہوتا ہے اور صدارتی ریفرنس میں بھی یہی بات نظر آتی ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنی اہلیہ کی بیرون ملک جائیداد کے حوالے سے 192 ڈاٹ کام نامی ویب سائٹ کا بھی ذکر کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ان کی اہلیہ کی جائیداد کے حوالے سے جس صحافی وحید ڈوگر نے دعویٰ کیا تھا اس کی طرف سے اس بارے میں کبھی معلومات سامنے نہیں آئیں کہ انہوں نے یہ معلومات کہاں سے حاصل کی ہیں۔
برطانوی لینڈ رجسٹری ریکارڈ حاصل کرنے کے لیے کس نے ادائیگی کی اس بارے میں بھی کوئی تفصیل عدالت کے سامنے پیش نہیں کی گئی۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ساتھ ایک ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے ساتھ ایک غیر رسمی ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات سپریم کورٹ بلڈنگ کے عقب میں واکنگ ٹریک پر ہوئی جس میں چیف جسٹس نے غیررسمی طور پر ریفرنس کا بتایا جس کا مقصد ان کا استعفیٰ حاصل کرنا تھا۔
وزیراعظم عمران خان سے موازنہ
جسٹس فائز عیسیٰ نے 24 نکات پر مشتمل ایک گراف بھی بنایا جس میں انہوں نے اپنے پوچھے گئے سوالات کے حوالے سے بتایا کہ انہیں ان کے جوابات نہیں دیے گئے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے اور اپنی اہلیہ کے اثاثے ظاہر نہیں کیے، عمران خان نے اپنے بچوں اور بیویوں کے اثاثوں کی تفصیل بھی نہیں دی۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنی اہلیہ کی لندن کی دو جائیدادوں کا کہا کہ جب وہ جائیدادیں خریدی گئیں تو ان کے لیے بھاری ٹیکس ادا کیا گیا۔ لیکن عمران خان نے لند ن میں جو جائیدادیں خریدیں ان کے حوالے سے کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا گیا۔ عمران خان نے بنی گالہ میں تین سو کنال کی پراپرٹی کے لیے ٹیکس کے حوالے سے بھی تفصیل نہیں دی۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ انہوں نے کبھی مارکیٹ ریٹ سے کم یا کسی اور طریقہ سے کبھی کوئی پلاٹ حاصل نہیں کیا جب کہ وزیراعظم عمران خان نے زمان پارک لاہور میں ایک کنال کا پلاٹ اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب کو حلف نامہ دے کر حاصل کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس رہنے کو کوئی جگہ نہیں ہے۔ عمران خان نے اسلام آباد میں بھی ایک کنال کا پلاٹ ورلڈ کپ جیتنے پر حاصل کیا تھا۔
عمران خان نے لندن کی جائیداد جرسی آف شور کمپنی کے نام سے لی۔ سال 2000 میں عمران خان نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا فائدہ اٹھایا اور اپنے لندن فلیٹ کو ظاہر کیا۔
وزرا اور مشیروں کے بھی بیرون ملک اثاثے ہیں: جسٹس فائز عیسیٰ
جسٹس فائز عیسیٰ نے 'اسٹگما ان پاکستان' کے عنوان سے لکھے گئے پیرا گراف میں کہا کہ ان کی اپنی بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں لیکن ملک کے وزیراعظم جن کے کہنے پر صدرِ مملکت نے ان کے خلاف ریفرنس بھیجا ان کی اپنی دو سابق بیویاں اور بچے لندن میں رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کے وزرا کی لندن اور دیگر ممالک میں جائیدادیں ہیں جن میں زلفی بخاری کی لندن میں جائیداد ہے، یارمحمد رند کے دبئی میں ولاز اور اپارٹمنٹ ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر کا ٹیکساس میں ایک گھر ہے۔ شہباز گل کا بھی امریکہ میں ایک گھر ہے۔ لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کی اہلیہ کے نام پرامریکہ میں 13 کمرشل اور پانچ رہائشی جائیدادیں ہیں۔
اُن کے بقول شہزاد اکبر کا لندن میں ایک فلیٹ اور اہلیہ کے نام جائیداد ہے۔ فیصل واوڈا کی لندن، دبئی اور ملائیشیا میں نو جائیدادیں ہیں جب کہ عثمان ڈار کی بھی برمنگھم میں ایک جائیداد ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے بیشتر وزرا کی جائیدادوں کے پتے بھی اپنی درخواست میں درج کیے ہیں۔
پٹیشن کے آخر میں جسٹس فائز عیسیٰ نے عدالت سے درخواست کی ان کی نظرثانی درخواست کو ٹیلی ویژن پر براہ راست دکھانے کا حکم دیا جائے کیوں کہ ان کے اور ان کے خاندان کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے لہذا ان کے مؤقف کو بھی اجاگر کیا جائے۔
انہوں نے درخواست کی جسٹس مقبول باقر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کو نظرثانی درخواست کی سماعت کرنے والے بینچ سے الگ نہ کیا جائے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر کردہ اس پٹیشن کے جواب میں اب تک حکومت یا کسی وفاقی وزیر کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا.
البتہ ماضی میں اس طرح کے الزامات پر حکومتی وزرا کی جانب سے ہمیشہ تردید کی گئی ہے۔
لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ بھی بیرون ملک جائیدادوں کی تردید کر چکے ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے حوالے سے حکومتی وزرا کوئی بھی بیان دینے سے احتراز کرتے ہیں۔
بعض حکومتی شخصیات کا یہ مؤقف رہا ہے کہ معاملہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔ لہذٰا وہ اس حوالے سے کوئی بات نہیں کر سکتے۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا پس منظر
مئی 2019 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں صدر مملکت کی جانب سے بھجوائے گئے تھے۔ ریفرنس میں جسٹس عیسیٰ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔
صدارتی ریفرنس میں اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔ ریفرنس دائر ہونے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے۔
بعد ازاں سات اگست 2019 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو ذاتی طور پر عدالت عظمیٰ میں چیلنج کر دیا اور 300 سے زائد صفحات پر مشتمل تفصیلی درخواست دائر کی۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ یہ ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے۔ لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ درخواست پر فیصلہ آنے تک سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکی جائے۔
جسٹس فائز عیسیٰ کیس کا تفصیلی فیصلہ
23 اکتوبر 2020 کو اس کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا جس میں عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دیا تھا۔ تاہم عدالت کے فیصلے کے مطابق جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن جج کے خلاف تحقیقات کے لیے وزیرِ قانون سے اجازت لینا قانون کے مطابق نہیں۔
عدالتی فیصلہ میں کہا گیا کہ ریفرنس دائر کرنے سے پہلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نوٹس جاری کر کے جواب نہیں لیا گیا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا جو 224 صفحات پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز کے خلاف ریفرنس فیض آباد دھرنا کیس نہیں بلکہ لندن جائیدادوں کی بنیاد پر بنا۔