سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی عیسیٰ فائز کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے صدر مملکت عارف علوی کے نام ایک خط میں الزام عائد کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو منی ٹریل اور جائیدادیں خریدنے کے لیے فنڈز کے ذرائع کے بارے میں پوچھنے پر مجبور کیا گیا۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ جسٹس عظمت سعید نے اپنی ریٹائرمنٹ سے چھ دن قبل جسٹس قاضی عیسیٰ فائز کے خلاف ریفرنس کی سماعت کی۔ کیوں کہ انہیں توقع تھی کہ ان کی ریٹائرمنٹ سے قبل ریفرنس کی سماعت مکمل ہو جائے گی۔
دوسری جانب سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس کے حوالے سے کیس میں دو ججز کے اختلافی نوٹ جاری کر دیے گئے۔
ان اختلافی نوٹس میں ججز نے شکایت کنندہ کے ساکھ پر سوالات اٹھائے ہیں اور کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو فیض آباد دھرنے کا فیصلے سنانے پر ہدف بنایا گیا ہے۔
سیرینا عیسیٰ کا خط
صدر ڈاکٹر عارف علوی کو اراسال کیے گئے چار صفحات پر مشتمل خط میں سرینا عیسیٰ نے کہا کہ ریفرنسز میں اس قدر بے قاعدگیاں تھیں کہ انہیں بد نیتی پر مبنی تصور کیا گیا جس کی وجہ سے ریفرنس کو ختم کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرے۔ میری اور میرے خاندان کی حفاظت اللّٰہ کرے گا۔ کسی کے اشاروں پر ناچنے والوں پر ہم واضح کرنا چاہتے ہیں اگر ہمیں نقصان پہنچا تو ان کے نام ایف اے ٹی ایف، انٹرپول اور اقوامِ متحدہ کو بھیجے جائیں گے۔
انہوں نے تحریر کیا کہ اس وقت کے چیف جسٹس نے صدارتی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش کرنے سے قبل ان کے شوہر کو دکھایا۔ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سے ملاقات میں ان شوہر نے جائیدادوں سے لاتعلقی ظاہر کی۔ جسٹس کھوسہ نے کہا پھر تو یہ ریفرنس قابل سماعت ہی نہیں، مگر اچانک صورتِ حال تبدیل ہوئی اور ریفرنس میرے پیچھے سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دیا گیا۔
ججز کے اختلافی نوٹ
دوسری جانب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواستوں پر تفصیلی فیصلے میں مزید دو ججز نے اختلافی نوٹ جاری کیے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا کہ وفاقی حکومت یا اس کے ادارے جج کے کنڈکٹ پر کونسل کو شکایت نہیں کر سکتے۔
جب کہ جسٹس مقبول باقر نے لکھا ہے کہ ایف بی آر قوانین کے مطابق 2004 سے 2013 تک خریدی گئی جائیدادوں کے ذرائع آمدن سے متعلق معاملے کی تحقیقات نہیں ہو سکتی۔ جب کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ چیئرمین ایسٹ ریکوری یونٹ (اے آر یو) شہزاد اکبر نے اکیلے ہی جج کے خلاف انکوائری کا فیصلہ کیا۔ وزیرِ قانون فروغ نسیم نے اے آر یو کی انکوائری پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ جب کہ وزیرِ اعظم شہزاد اکبر کے اقدامات سے لا علم تھے۔ وزیرِ اعظم نے وزیرِ قانون اور شہزاد اکبر سے ان کے غیر قانونی اقدامات پر کچھ نہیں پوچھا۔ صدرِ مملکت نے بھی ایسا کوئی سوال پوچھے بغیر ریفرنسز پر دستخط کر دیے۔
جسٹس منصور علی نے لکھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جان بوجھ کر فیض آباد دھرنے پر ٹارگٹ کیا گیا۔ فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے لیے اختلاف کا سبب بن گیا۔جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف انتقام اور ناراضی نظر ثانی کی درخواستوں میں واضح ہے۔ ایسٹ ریکوری یونٹ میں مبہم درخواست کا اندراج کیا گیا۔ انتقام اور ناراضی کی وجہ سے جسٹس قاضی عیسیٰ کے خلاف بوگس شکایت کو پذیرائی دی گئی۔ جسٹس قاضی اور ان کے اہل خانہ کی نگرانی کی گئی۔ ان کے خلاف غیر قانونی طریقے سے مواد اکٹھا گیا۔ غیر قانونی طریقے سے اکھٹے کیے گئے مواد کو وزیرِ اعظم کے مشیر کے ساتھ صدرِ مملکت کو ارسال کیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا کہ ایف بی آر کو تحقیقات کی ہدایات دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ کونسل کسی بھی جج کے معاملے پر از خود نوٹس لینے میں آزاد ہے۔ لیکن ایف بی آر یا کونسل کی کارروائی سے گریزاں ہونے کا مؤقف کسی فریق نے نہیں اپنایا۔ اداروں کو اختیارات نہ ہونے پر سپریم کورٹ اپنے حکم سے اختیارات نہیں دے سکتی۔ ایف بی آر کی رپورٹ کونسل کے سامنے جج کے خلاف ایک نئی شکایت ہو گی۔
'جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کو بلا کر نہیں سنا گیا'
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایف بی آر کو آرٹیکل 209 کے تحت صدر کو اپروچ کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ وفاقی حکومت یا اس کے ادارے جج کے کنڈکٹ پر کونسل کو شکایت نہیں کر سکتے۔ جسٹس عیسیٰ کے خاندان کو بھی شہریوں کی طرح آزادی اور تحفظ حاصل ہے۔ جسٹس عیسی کی اہلیہ اور بچوں کو بلا کر نہیں سنا گیا اور نہ ہی فریق بنایا گیا۔
یہ بھی لکھا گیا ہے کہ شکایت کنندہ کی شکایت کو پذیرائی دینے کے تمام اقدامات کالعدم قرار دیے جاتے ہیں۔ جب کہ ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے۔
انہوں نے لکھا کہ صدر مملکت کو ریفرنس کو منظور کر کے آگے بھیجنے کا اختیار نہیں تھا۔
اختلافی نوٹ میں جسٹس منصور علی شاہ نے مزید لکھا کہ شکایت کنندہ وحید ڈوگر کو اہلیہ جسٹس قاضی فائز کا اسپینش نام معلوم ہونا حیران کن ہے۔ شکایت کنندہ کا لندن جائیدادوں تک رسائی حاصل کرنا بھی حیران کن ہے۔
یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اسی طرح شہزاد اکبر نے نہیں بتایا کہ وحید ڈوگر کو یہ سب کیسے معلوم ہوا۔ وفاق کا مؤقف ہے کہ صحافی کو اس کے معلومات کے ذرائع بتانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن وفاق کا یہ مؤقف درست نہیں۔ کیوں کہ شکایت کنندہ وحید ڈوگر نے اپنی تحقیقاتی خبر کسی اخبار میں شائع نہیں کی اور وحید ڈوگر نے جج کے خلاف کارروائی کے لیے شکایت کا اندراج کرایا اور اس وقت وحید ڈوگر کا اسٹیٹس ایک شکایت کنندہ کا تھا صحافی کا نہیں۔
جسٹس منصور کے مطابق شکایت کنندہ کو شکایت کے لیے معلومات فراہم کی گئیں۔ جس کسی نے بھی وحید ڈوگر کو یہ معلومات فراہم کیں وہ اس کہانی کے اصل کردار ہیں۔
'فائز عیسیٰ کو عہدے سے ہٹانے کیلئے سرکاری مشینری کا استعمال'
جسٹس مقبول باقر نے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا کہ ریفرنسز کالعدم قرار دیے جانے کے بعد جج کے اہل خانہ کی جائیدادوں، ان کے ٹیکس سے متعلق معاملات عوامی مفاد کے زمرے میں نہیں آتے۔ ایف بی آر قوانین کے مطابق 2004-2013 تک خریدی گئی جائیدادوں کے سورس اُف اِنکم سے متعلق معاملہ کی تحقیقات نہیں ہو سکتیں اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی ہیں۔
جسٹس مقبول باقر کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا یہ مؤقف درست ہے کہ ان کے خلاف ریفرنسز قانون اور حقائق کے خلاف بدنیتی پر مبنی ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو عہدے سے بے دخل کرنے کے لیے سرکاری مشینری کا استعمال کیا گیا جس میں درخواست گزار کی خفیہ طور پر نگرانی بھی شامل ہیں۔
کیس کا فیصلہ کب سنایا گیا
رواں سال 20 جون کو سپریم کورٹ نے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنسز کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی درخواست کو منظور کیا تھا جس کے بعد 23 اکتوبر کو تفصیلی جاری کیا گیا۔ جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دیا گیا تھا۔
تاہم عدالت کے فیصلے کے مطابق جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن جج کے خلاف تحقیقات کے لیے وزیرِ قانون سے اجازت لینا قانون کے مطابق نہیں تھا۔ ریفرنس دائر کرنے سے پہلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نوٹس جاری کر کے جواب نہیں لیا گیا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا۔
عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کی۔
فل کورٹ کے دیگر اراکین میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم خان، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس قاضی امین احمد شامل تھے۔
یہ معاملہ گزشتہ سال مئی سے رواں سال جون تک تقریباً 13 ماہ تک چلا۔
سپریم کورٹ میں اس کیس کی 40 سے زیادہ سماعتیں ہوئیں۔
کیس کا پس منظر
مئی 2019 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں صدر مملکت کی جانب سے بھجوائے گئے تھے۔
ریفرنس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔
صدارتی ریفرنس میں اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔ ریفرنس دائر ہونے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے۔
بعد ازاں 7 اگست 2019 جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو ذاتی طور پر عدالت عظمیٰ میں چیلنج کر دیا اور 300 سے زائد صفحات پر مشتمل تفصیلی درخواست دائر کی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ میرے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے۔ لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ درخواست پر فیصلہ آنے تک سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکی جائے۔