رسائی کے لنکس

تربت سے لانگ مارچ کوئٹہ پہنچ گیا، بالاچ بلوچ کے 'قاتلوں' کو پھانسی دینے کا مطالبہ  


 لاپتا افراد کے لواحقین کئی روز سے تربت میں دھرنا دیے ہوئے تھے۔
لاپتا افراد کے لواحقین کئی روز سے تربت میں دھرنا دیے ہوئے تھے۔

بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تربت سے لاپتا افراد کی بازیابی اور بالاچ بلوچ کی ہلاکت کے خلاف شروع ہونے والا لانگ مارچ کوئٹہ پہنچ گیا ہے۔

پیر کی شام کوئٹہ کے علاقے سریاب مل پہنچنے والے لانگ مارچ کا بڑی تعداد میں شہریوں نے استقبال کیا۔ اس مارچ میں سول سوسائٹی کے نمائندے، طلبہ، بزرگ اور خواتین شریک ہیں۔

ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے کوئٹہ کے حساس علاقے'ریڈ زون' کو احتجاج کے پیشِ نظر سیل کر دیا گیا ہے جب کہ شہر میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ لاپتا افراد کے لواحقین نے کوئٹہ کے ریڈ زون میں دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا۔

لانگ مارچ کے منتظمین اور بلوچ یک جہتی کمیٹی نے الزام عائد کیا ہے کہ پولیس نے خضدار، قلات اور مستونگ کے بعد کوئٹہ میں داخل ہوتے ہوئے لانگ مارچ کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔

کمیٹی کی ایک رکن ماہ زیب بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے ایک پرامن لانگ مارچ کو روکنا ریاستی جبر ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں پر لازم ہے کہ وہ حکومت کے اس رویے کے خلاف آواز بلند کریں۔

ماہ زیب بلوچ نے کہا کہ "اس قافلے کا مقصد یہ ہے کہ بلوچستان میں لوگوں کو جبری طور پر غائب کرنے، مسخ شدہ لاشیں دینےاور ماورائے عدالت قتل کے واقعات کو ختم کیا جائے۔"

انہوں نے کہا کہ یہ ایک عوامی تحریک ہے جو تربت سے پنجگور پہنچی جہاں لاپتا افراد کی رجسٹریشن بھی کی گئی۔ ان علاقوں میں ایسے لوگ بھی تھے جن کے پیارے لاپتا ہیں اور ان کے کیسز بھی رجسٹرڈ نہیں ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم پرامن مارچ کر رہے ہیں، ہمارے پاس کوئی اسلحہ نہیں ہے نہ ہی ہم کسی کو قتل کرنے آئے ہیں۔

ان کے بقول لانگ مارچ کے شرکا مظلوم لوگ ہیں اور ہم انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جو ہمارا آئینی اور قانونی حق ہے۔

ماہ زیب بلوچ کے مطابق لانگ مارچ میں ہر اس ماں، بہن اور بیٹی کی آواز شامل ہے جن کے پیاروں کو جبری طور پر لاپتا کیا گیا ہے۔ یہ مارچ بالاچ بلوچ اور دیگر بلوچ نوجوانوں کے نام ہیں جن کو مبینہ طور پر جعلی مقابلوں میں ہلاک کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ اس مارچ میں بالاچ بلوچ کی والدہ اور والد سمیت ان کے بھائی اور دیگر عزیز و اقارب بھی شریک ہیں۔

ماہ زیب بلوچ نے الزام عائد کیا کہ انسداد دہشت گردی پولیس (سی ٹی ڈی) نے تربت میں حالیہ دنوں میں 10 افراد کو جعلی مقابلوں میں ہلاک کیا ہے۔

یاد رہے کہ بلوچستان کے علاقے تربت میں سی ٹی ڈی کے ساتھ مبینہ مقابلے میں چار افراد کی ہلاکت پر لواحقین سراپا احتجاج ہیں۔ لواحقین کا دعویٰ ہے کہ مارے جانے والے افراد کو جبری طور پر لاپتا کیا گیا تھا۔

اس واقعے پر پولیس نے بالاچ بلوچ اور دیگر تین افراد کے قتل کا مقدمہ بالاچ کے والد مولا بخش کی مدعیت میں ایس ایچ او سی ٹی ڈی اور دیگر اہلکاروں کے خلاف درج کیا ہے۔ مقدمے میں قتل اور اقدامِ قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

واضح رہے کہ سی ٹی ڈی پولیس نے گزشتہ ماہ مقابلے میں چار دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ مقابلے میں مارے جانے والے افراد کی شناخت بالاچ مولا بخش، سیف اللہ، ودود اور شکور کے ناموں سے ہوئی تھی۔

مدعی مولا بخش نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ 29 اکتوبر کی شب نامعلوم افراد ان کے بیٹے بالاچ کو گھر کے قریب سے اٹھا کر لے گئے تھے۔ بعد ازاں 20 نومبر کو سی ٹی ڈی تھانے میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔

بالاچ بلوچ کے ضعیف العمر والد مولا بخش بھی تربت سے دیگر شرکا کے ہمراہ تقریباً 670 کلو میٹر کا طویل فاصلہ طے کر کے کوئٹہ پہنچے ہیں۔

مولا بخش نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایک ماہ تک ان کے بیٹے بالاچ کو حراست میں رکھا گیا اور بعد میں عدالت میں پیش کیا گیا۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے بالاچ اور دیگر تین افراد کو تربت میں بانک کے علاقے میں گاڑی سے اتارا اور انہیں کہا کہ وہ بھاگ جائیں، اس کے بعد انہیں ایک جعلی مقابلے میں مار دیا گیا۔

"میرے بھائی کا کیا قصور تھا جو اسے اس طرح مار دیا گیا"

مولا بخش نے کہا کہ "ہم حکومت سے انصاف چاہتے ہیں جن اہلکاروں نے میرے بیٹے بالاچ کو مارا ہے۔ انہیں سرِ عام پھانسی کی سزا دی جائے۔"

لانگ مارچ میں مبینہ جعلی مقابلے میں مارے گئے ایک اور نوجوان عبدالودود کے بھائی فارس مبارک نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے بھائی کو رواں سال 26 اپریل کو سیکیورٹی فورسز نے گھر سے اٹھایا اور بعد میں اسے لاپتا کردیا گیا۔

فارس مبارک کے بقول 23 نومبر کو سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے ان کے بھائی کو مبینہ جعلی مقابلے میں ہلاک کردیا۔ اس واقعے کے بعد پورے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم حکومت سے پوچھتے ہیں کہ ہمارے بھائی کا کیا قصور تھا کہ اسے اس طرح مارا گیا۔

فارس مبارک نے کہا کہ بلوچستان میں سی ٹی ڈی کے ادارے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سیکیورٹی فورسز کا کام عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔ لیکن یہاں سی ٹی ڈی جیسی فورسز عوام پر ظلم کر رہی ہیں۔

دوسری جانب محکمۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ بالاچ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کا رکن تھا۔

سی ٹی ڈی کے مطابق بالاچ نے دورانِ تفتیش اعتراف کیا کہ وہ ٹارگٹ کلنگ اور آئی ای ڈی (بم) نصب کر چکا ہے۔ وہ بارودی مواد اپنے دیگر ساتھیوں کے پاس لے کر جا رہا تھا جنہوں نے موٹر سائیکل آئی ای ڈی پہلے سے تیار کر رکھی تھی اور تربت شہر میں دہشت گردی کی کارروائی کرنا چاہتے تھے۔

بیان میں مزید دعویٰ کیا گیا تھا کہ بالاچ کے انکشاف پر سی ٹی ڈی نے چھاپہ مار ٹیم تشکیل دی۔ وقوعے پر پہنچتے ہی دہشت گردوں نے فائرنگ شروع کر دی۔ بالاچ دہشت گردوں کی فائرنگ سے مارا گیا۔

بلوچستان کے نگراں وزیرِ اطلاعات جان اچکزئی کہتے ہیں کہ "ہم دھرنے کے شرکا کے اکثر مطالبات تسلیم کر چکے ہیں، بلوچستان حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو واقعے کے بارے میں تحقیقات کرے گی۔"

جان اچکزئی کے بقول "ہم ریڈ زون میں احتجاج کی اجازت کسی صورت نہیں دیں گے۔"

سی ٹی ڈی کے چار اہلکاروں کو معطل کرنے کا حکم

دوسری جانب بلوچستان ہائی کورٹ نے تربت میں بالاچ بلوچ کے مبینہ طور پر حراست میں قتل سے متعلق ایک درخواست کو نمٹاتے ہوئے سی ٹی ڈی مکران کے چار اہلکاروں کو معطل کرنے کا حکم دیا ہے۔

پیر کو بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس نذیر احمد لانگو پر مشتمل بینچ نے درخواست پر محفوظ فیصلہ سنایا۔

یہ درخواست حکومت کی جانب سے سیشن کورٹ تربت کے سی ٹی ڈی اہلکاروں پر مقدمے کے اندراج کے حکم کے خلاف دائر کی گئی تھی۔

ہائی کورٹ نے کہا کہ بالاچ بلوچ کی گرفتاری، ہلاکت سے متعلق سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کے خلاف درج تینوں ایف آئی آر کرائمز برانچ پولیس کے حوالے کی جائیں۔

عدالت نے ڈی آئی جی کرائمز برانچ کو حکم دیا کہ وہ قانون کے مطابق ان ایف آئی آرز کی تحقیقات کے لیے سینئر افسران کی ٹیم تشکیل دیں۔

ہائی کورٹ نے حکومت کی دائر درخواست کو نمٹاتے ہوئے فیصلے کی نقول آئی جی پولیس بلوچستان اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ کو اس ہدایت کے ساتھ بھیجنے کا حکم دیا کہ منصفانہ تحقیقات کے لیے ریجنل آفیسر سی ٹی ڈی مکران عادل عامر، آئی او سی ٹی ڈی تربت عبداللہ، ایس ایچ او سی ٹی ڈی تربت عبدالاحد اور سی ٹی ڈی کے لاک اپ انچارج کو فوری طور پر معطل کیا جائے۔

لانگ مارچ کے شرکا سے حکومت کے مذاکرات
دوسری جانب گزشتہ شب نگراں وزیرِاطلاعات بلوچستان جان اچکزئی نے کہا ہے کہ تربت سے آنے والے لانگ مارچ کے منتظمین اور بلوچ یک جہتی کمیٹی کے ساتھ سریاب روڈ پر مذاکرات جاری ہیں۔

ان کے بقول حکومت کی کوشش ہے کہ لانگ مارچ کے شرکا کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ان کے مسائیل پاکستان کے آئین وقانون کے مطابق حل کریں۔

انہوں نے کہا ہے کہ "ہم دھرنے کے شرکا کے اکثر مطالبات تسلیم کر چکے ہیں۔ بلوچستان حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو واقعے کے بارے میں تحقیقات کرے گی۔

جان اچکزئی نے کہا کہ "ہم ریڈ زون میں احتجاج کی اجازت کسی صورت نہیں دیں گے۔"

انہوں نے کہا ہے کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے بھی سی ٹی ڈی کے 4 اہلکاروں کو معطل کردیا ہے۔ ان کے بقول بلوچ یک جہتی کمیٹی کے لانگ مارچ کے شرکا کے مطالبات تسلیم ہوئے ہیں۔ اس لیے شرکا کا ریڈ زون کی طرف آنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

البتہ بلوچ یک جہتی کمیٹی کے رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ انہیں کوئٹہ شہر میں ریلی نکالنے کی اجازت دی جائے۔ کوئٹہ میں ریلی کے بعد شرکا نے اسلام آباد تک لانگ مارچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG