رسائی کے لنکس

علم و آگہی کے میدان میں’ مثالی‘ پاک امریکہ تعلقات پر زور


علم و آگہی کے میدان میں’ مثالی‘ پاک امریکہ تعلقات پر زور
علم و آگہی کے میدان میں’ مثالی‘ پاک امریکہ تعلقات پر زور

دوطرفہ معاملات میں اعتماد کی کمی کا سامنا ہے، جسے دور کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں، ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ہمارے بین الاقوامی امور کے ماہرین کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا، تاکہ باہمی طور پر سود مند تعلقات کو فروغ دیا جاسکے

مضبوط اور ہمہ جہت پاک امریکہ تعلقات کے فروغ پر زور دیتے ہوئے، بیرونِ ملک پاکستانیوں کے وفاقی وزیر ڈاکٹر فاروق ستارنے کہا ہے کہ جہاں امریکی انتظامیہ سے بہتر تعلقات قائم ہونے چاہئیں وہاں پر’ہم، بِل گیٹس کے امریکہ کے ساتھ خراب تعلقات کے متحمل نہیں ہوسکتے‘۔

اُنھوں نے کہا کہ تعلیم، ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کے میدان میں پاکستان اور امریکہ کے’ مثالی تعلقات‘ قائم ہونے چاہئیں۔

جمعے کو ’وائس آف امریکہ‘ سے ایک خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ اِس میں شک نہیں کہ اِس وقت دوطرفہ معاملات میں اعتماد کی کمی عیاں ہے، جسے دور کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں، اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے بین الاقوامی امور کے ماہرین کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا تاکہ باہمی طور پر سود مند تعلقات کو فروغ دیا جاسکے۔

اُنھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور انٹیلی جنس شیئرنگ کے ضمن میں دونوں ملک سود مند تعاون کرتے آئے ہیں، اور ضرورت اِس بات کی ہے کہ دفاعی اور اسٹریٹجک شعبے میں باہمی تعاون کو مضبوط خطوط پر فروغ دیا جائے۔

ایک سوال کے جواب میں، اُنھوں نے کہا کہ ہمیں امداد نہیں، باہمی تجارت کو فروغ دینا چاہیئے۔

تعلیمی اسکالرشپس کا ذکر کرتے ہوئے، اُن کا کہنا تھا کہ ’پڑھے لکھے پاکستانی‘ امریکہ کے تعلیمی شعبے میں تعاون کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اِسی طرح سے، اُن کے بقول، توانائی، مائکرو فائنانس، کوآپریٹو فارمنگ، زرعی اصلاحات اور صحت کے شعبوں میں باہمی تعاون بڑھنا پاکستان کے حق میں بہتر ہوگا۔

اِس ضمن میں، بیرونِ ملک پاکستانیوں کے وزیرنے تجویز پیش کی کہ اگر صدر براک اوباما اور بِل گیٹس پاکستان کا دورہ کریں تو اِس کے دوطرفہ دوستی کے فروغ کے سلسلے میں دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔

اُن کے بقول، پاکستان کی بزنس کمیونٹی میں بڑا ’پوٹینشل‘ ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے مواقع پیدا کیے جائیں، مثلاً بِل گیٹس کے ساتھ؛ پھر یہ کہ، ٹیکنالوجی کی منتقلی ہو، پاکستان میں ’سلیکان ویلی‘ بنائی جائے، اور کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ کو ترقی دے کر سائبر سٹیز کا درجہ دیا جائے۔

کراچی کے امن و امان کے حوالے سےایک سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ وزارتِ داخلہ کا قلمدان پیپلز پارٹی کی حکومت کے پاس ہے۔ اِس لیے امن و امان کی ذمہ داری ایم کیو ایم پر نہیں ڈالی جانی چاہیئے۔اُنھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم حکومتی اتحاد کا حصہ ہوتے ہوئے ’اصولی سیاست‘ کرتی آئی ہے۔ اِس ضمن میں اُنھوں نے قومی مصالحتی آرڈیننس، چینی اور گندم کے بحرانوں کا ذکر کیا۔

دوہری شہریت کے سوال پر اُنھوں نے کہا کہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کو پاکستان کے انتخابات میں ووٹ کا آئینی حق ہونا چاہیئے۔

زرِ مبادلہ کے طور پر کثیر رقوم ملک بھیجنےپر اُنھوں نے بیرون ملک پاکستانیوں کو سراہا۔ساتھ ہی، اُنھوں نے کہا کہ وہ کسی دوہرے ٹیکس کی سوچ سے اتفاق نہیں کرتے۔

ایک اور سوال پر قومی اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ کے پارلیمانی لیڈر نے کہا کہ خطے کی صورتِ حال کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان امریکہ تعلقات کو درست سمت میں تقویت دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ، اُن کے بقول، دونوں ممالک ایک دوسرے کی ضرورت ہیں، لیکن اِس میں باہمی عزت و احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔

ڈرون حملوں اور عسکریت پسند عناصر کی طرف سےافغان سرحد عبور کرنے کےمعاملات کے ضمن میں سوال پر، ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کو ایک دوسرے کی’ریڈ لائن‘ ترجیحات کا خیال کرنا ہوگا۔ساتھ ہی، اُنھوں نے کہا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی پاکستان کا اپنا بھی مسئلہ ہے، جس حوالے سے پاکستان کو دنیا کےتعاون کی ضرورت رہے گی۔

افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ امن اور استحکام کا قیام دونوں ملکوں کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔

XS
SM
MD
LG