ماہرین کہتے ہیں کہ ان دونوں فلسطینی تنظیموں کے درمیان مصالحتی سمجھوتے کا مقصد اختلافات کی خلیج کو پاٹنا ہے ۔ فتح تحریک سیکولر ہے اور اسکے قائد محمود عباس ہیں جو فلسطینی اتھارٹی کے صدر بھی ہیں۔ وہ نومبر 2004 میں یاسر عرفات کے انتقال کے بعد، جنوری 2005 سے بر سرِ اقتدار ہیں۔ عرفات فتح تحریک کے بانی تھے۔
عسکریت پسند گروپ حماس اسلامک رزسٹنس موومنٹ کےنام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ برسوں سے یہ گروپ اسرائیل کے خلاف خود کش بمباری اور راکٹوں کے حملے کرتا رہا ہے، جس کے جواب میں اسرائیل نے فوجی کارروائی کی ہے ۔ اپریل سے حماس اور اسرائیل کے درمیان غیر سرکاری جنگ بندی قائم ہے ۔ امریکہ اور اسرائیل حماس کو دہشت گرد گروپ سمجھتے ہیں۔ لیکن حماس سماجی خدمت کا وسیع نیٹ ورک بھی چلاتا ہے ۔
فلسطینی اتھارٹی کی فورسز کو 2007 میں شکست دینے کے بعد سے ، غزہ کی پٹی پر حماس کا کنٹرول ہے جب کہ فتح کی قیادت میں فلسطینی اتھارٹی مغربی کنارے پر حکمرانی کرتی ہے ۔ اس مہینے کے شروع میں دونوں گروپوں نے مصالحت کے ایک سمجھوتے پر دستخط کیئے ۔ اس سمجھوتے میں مصریوں نے ثالث کا کردار ادا کیا اور اس پر قاہرہ میں دستخط ہوئے ۔
دوسری چیزوں کے علاوہ، اس سمجھوتے میں، دونوں تنظیموں کے درمیان حالت جنگ کے خاتمے، ایک عبوری حکومت کے قیام، اور ایک سال کے اندر مجلسِ قانون ساز اور صدارتی انتخابات کے لیے کہا گیا ہے ۔
نیو یارک یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ کے ماہر، Alon Ben-Meir کہتے ہیں کہ دونوں فلسطینی دھڑوں نے ، خاص طور سے اسرائیل کے خلاف ، اصولاً تشدد استعمال نہ کرنے پر بھی اتفاق کیا۔
’’اس معاملے کو زیادہ اچھالا نہیں گیا ہے لیکن میں اپنے قابلِ اعتماد ذرائع سے جانتا ہوں کہ مصر اور فتح کے لیے یہ معاملہ بے حد اہم تھا۔ انھوں نے اصرار کیا کہ اگر حماس کو اس قسم کے سمجھوتے کو قبول کرنا ہے ، تو اسے اسرائیل کے خلاف کسی بھی پرُتشدد کارروائی کے استعمال سے باز رہنا ہوگا کیوں کہ دوسری صورت میں اسرائیل کی جانب سے بہت بڑے پیمانے پر جوابی کارروائی کی جائے گی۔‘‘
Ben-Meir کہتے ہیں کہ حماس کو ایک اور بنیاد ی مسئلے سے بھی نمٹنا ہوگا۔’’انہیں صحیح معنوں میں تشدد ترک کرنا ہوگا اور اپنے منشور سے وہ شق نکالنی ہو گی جس میں اسرائیل کی تباہی کے لیے کہا گیا ہے ۔اسرائیل کا یہ حق جائز ہے کہ وہ یہ مطالبہ کرے کہ حماس کے ساتھ مذاکرات سے قبل ، حماس یہ شق ختم کرے۔‘‘
اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو نے اس سمجھوتے کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ امن کے خلاف شدید ضرب، اور دہشت گردی کے لیے بہت بڑے انعام کے مترادف ہے ۔ امریکہ نے مزید اطلاعات ملنے تک، کسی حتمی رائے کا اظہار ملتوی کر دیا ہے ۔
لندن اسکول آف اکنامکس میں مشرق وسطیٰ کے امور کے ایک ماہر، فواز جرجیز کہتے ہیں کہ اس سمجھوتے کو قابل عمل بنانے کے لیئے دونوں فریقوں کو بعض انتہائی مشکل چیلنجوں سے نمٹنا ہوگا۔’’اس سمجھوتےکی شرائط دو اہم امور کے بارے میں انتہائی مبہم ہیں۔ پہلا تو یہ کہ جب حکومت کی تشکیل ہو گی، تو ہمیں کچھ نہیں معلوم کہ نئی متحدہ حکومت میں، حماس اور فتح میں سے کون انچارج ہو گا۔دوسری بات یہ کہ کیا حماس جو غزہ کی پٹی کو کنٹرول کرتی ہے، فلسطینی اتھارٹی کی سیکورٹی فورسزکا انچارج بننے کی اجازت دے گی۔‘‘
تاہم جرجیز کہتے ہیں کہ اس سمجھوتے کی اہمیت کو کم نہیں کیا جانا چاہیئے۔’’اس سمجھوتے کے سیاسی مضمرات یہ ہیں کہ فتح اور حماس دونوں نے سمجھ لیا ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی اور انتقامی کارروائی کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہ جان گئے ہیں کہ فلسطینی عوام اس رقابت اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے تنگ آ چکے ہیں۔ انھوں نے سمجھ لیا ہے کہ جب تک ان کی صفوں میں اتحاد نہیں ہوگا، اور وہ کوئی متحدہ حکومت نہیں بنائیں گے، کوئی فلسطینی ریاست نہیں بن سکے گی اور بین الاقوامی برادری فلسطینیوں کو سنجیدگی سے نہیں لے گی۔‘‘
جرجیز کا خیال ہے کہ دونوں فریق مصالحت کے اس سمجھوتے کی پابندی کریں گے۔ حماس اور فتح کے درمیان دشمنی اپنی جگہ موجود ہے لیکن دونوں تنظیموں کی قیادت کو حقیقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ یہ کوئی محبت کی شادی نہیں ہے لیکن مصالحت ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ سمجھوتہ قائم رہے گا۔
Ben-Meir ایک قدم اور آگے جا کر یہ پیش گوئی کرتے ہیں کہ کوئی پُر تشدد کارروائیاں نہیں ہوں گی کیوں کہ حماس اس بات کا خاص خیال رکھے گی کہ اس نے مصریوں اور فتح کے ساتھ جو سمجھوتہ کیا ہے، اس کی خلاف ورزی نہ ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ حماس عرب دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کو سمجھتی ہے ، اور اس کی کوشش ہے کہ ان سے پورا پورا فائدہ اٹھائے۔