اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ قیامِ امن کیلیے "تکلیف دہ سمجھوتے" کرنے پر آمادہ ہیں تاہم ان کا ملک 1967ء کی سرحدیں تسلیم نہیں کرے گا۔
منگل کے روز امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ ان کا ملک 1967ء کی چھ روزہ عرب- اسرائیل جنگ سے قبل کی ان سرحدوں کی جانب دوبارہ نہیں لوٹے گا جو ان کے بقول "ناقابلِ دفاع" ہیں۔
اپنے خطاب میں نیتن یاہونے کہا کہ تنازعہ درحقیقت فلسطینی ریاست کے قیام پر نہیں بلکہ ان کے مطابق اصل مسئلہ یہ ہے کہ فلسطینی ایک یہودی ریاست کے وجودکو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کے حجم کے معاملے پر فراخ دلی کا مظاہرہ کرنے پر تیار ہے لیکن یروشلم کبھی بھی تقسیم نہیں کیا جائے گا۔
اسرائیلی وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ خطے میں امن صرف مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ تاہم نیتن یاہو نے واضح کیا کہ ان کا ملک ایک ایسی فلسطینی انتظامیہ سے مذاکرات نہیں کرے گا جو مسلح تنظیم 'حماس' کی حمایتِ یافتہ ہو جسے انہوں نے اپنے خطاب میں 'القاعدہ کی فلسطینی شکل' قرار دیا۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم نے اپنے خطاب میں ایران کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے حصول کی صورت میں پیش آنے والے خطرات کی بھی نشاندہی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا ہونے کی صورت میں "جوہری دہشت گردی کا ڈرائونا خواب " دنیا بھر کیلیے ایک واضح اور موجود خطرے کی صورت اختیار کرجائے گا۔
اس سے قبل اسرائیلی وزیرِاعظم امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے کیلیے ایوان میں آئے تو ان کا بھرپور استقبال کیا گیا۔
امریکی کانگریس سے خطاب کو اپنے لیے ایک اعزاز قرار دیتے ہوئے اسرائیلی وزیرِاعظم نے امریکہ اور اسرائیل کے درمیان موجود مضبوط تعلقات کا بھی تذکرہ کیا۔ ان کا کہناتھا کہ اسرائیل امریکہ کا ایک پائیدار اتحادی ہے اور دونوں ممالک کو باہمی تعلقات مزید مضبوط بنانے کیلیے کام کرنا چاہیے۔
اپنے خطاب میں نیتن یاہو نے اسرائیل کے جمہوری نظام کو مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک کیلیے ایک مثال قرار دیا۔
اپنے دورہ امریکہ کے دوران اسرائیلی وزیرِاعظم نے وہائٹ ہائوس میں امریکی صدر براک اوباما اور نائب صدر جو بائیڈن سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں بھی کیں۔
اس سے قبل پیر کے روز نیتن یاہو نے ایک اسرائیل نواز یہودی لابنگ گروپ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیل کا "حقِ وجود" تسلیم کرنے کی صورت ہی میں ممکن ہے۔
اس سے قبل اتوار کے روز امریکی صدر براک اوباما نے اسی اسرائیل نواز لابنگ گروپ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ میں دیرپا امن کیلیے کسی بھی معاہدے کے حصول کی خاطر اسرائیل کو "کٹھن فیصلے" کرنا ہونگے۔
امریکی صدر کے بقول ایسے سخت فیصلوں میں 1967ء کی حد بندیوں کی بنیاد پر فلسطینی ریاست کے قیام کیلیے مذاکرات کا آغاز شامل ہے۔ اسرائیلی وزیرِاعظم مذکورہ تجویز کو ماضی میں بھی کئی بار رد کرچکے ہیں۔