نام نہاد ’آستانہ فورمیٹ‘ کے زیر سایہ جمعے کو تہران میں منعقد ہونے والے اجلاس میں روس، ترکی اور ایران کے قائدین اکٹھے ہونے والے ہیں جس میں شام کے صوبہٴ ادلب کی قسمت پر گفت و شنید کی جائے گی جو ملک میں باغیوں کے زیر قبضہ آخری علاقہ ہے۔
اس خوف کا اظہار کیا جارہا ہے کہ شام اور روس کی افواج ایک بڑا حملہ کرنے والی ہیں جس سے انسانی ہمدری کا بڑا بحران پیدا ہونے اور ترک پشت پناہی والے باغیوں سے محاذ آرائی کا خدشہ ہے۔ روس اور شامی افواج نے پہلے ہی اس ہفتے ادلب کے اہداف کے خلاف فضائی حملے کیے ہیں۔
صوبہ ادلب میں تقریباً 20 لاکھ 90 ہزار لوگ رہتے ہیں جو ترکی کی پشت پناہی والی باغی افواج اور اسد کے خلاف مخاصمانہ گروہوں کا آخری محفوظ ٹھکانہ ہے جن میں القاعدہ سے منسلک شدت پسند گروپ حیات تحریر الشام شامل ہے۔ شام کے بارے میں تجزیہ کار، کیل اورٹن کے مطابق، یہ ٹاکرا شام اور روس کی طویل مدتی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔
بقول اُن کے ’’سبھی نے اِن کو ادلب میں اکٹھا کیا تھا تاکہ جب اس حتمی ٹاکرے کا لمحہ آئے تو وہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی کے نام پر کارروائی کی جائے۔ حالانکہ اُن کا ہدف شہری آبادی ہے جو سات برس قبل اسد کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ مقصدیہ ہے کہ بغاوت کو ختم کرنا ہے اور ملک میں پھر سے مکمل کنٹرول کا حصول ہے‘‘۔
اس ہفتے اقوام متحدہ کے ایلچی برائے شام، استفان ڈی مستورا نے انتباہ جاری کیا ہے کہ بہت بڑی سطح کا انسانی ہمدردی کا بحران درپیش ہوگا۔
ڈی مستورا نے کہا ہے کہ ’’یہی وجہ ہے کہ میں صدر (ولادیمیر) پوٹن اور صدر (رجب طیب) اردوان سے اپیل کر رہا ہوں، اگر مجھے اجازت ہو،کہ وہ بات چیت کریں اور اس کی تہہ میں جائیں، شایدٹیکنالوجی پر گفت و شنید ہو تو حل تلاش ہوسکتا ہے‘‘
اورٹن کے مطابق، شامی سرحد کے ساتھ ساتھ ترکی نے صوبہٴ ادلب میں اپنی فوجی موجودگی بڑھا دی ہے جبکہ شام کے کنٹرول کے حصول کے لیے ’پراکسی‘ لڑائی کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔
دیکھا جائے گا آیا اردوان یہ سمجھوتا تسلیم کریں گے۔
اورٹن کے بقول ’’اگر ترکی اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ ’پی کے کے‘ ادلب میں داخل نہ ہو۔ امکان ہے کہ یہی ہوگا۔ اور اگر ساتھ ساتھ مہاجرین کی بھرمار ہوگی، اگر ایسا معاملہ ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایرانی اور (شام کی) حکومت نے ’پی کے کے‘ کو تربیت فراہم کرنا شروع کردیا ہے، جب کہ وہ اشتہار اس چیز کا دے رہے ہیں کہ وہ اپنی فوجوں کے ساتھ آنے والے ہیں‘‘۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ مغرب کے عدم اقدام نے امریکہ اور اُس کے اتحادی ادلب کی تقدیر کا فیصلہ کرنے میں دور دور تک دکھائی نہیں دیتے جس کا فیصلہ اب روس، ترکی اور ایران کرنے لگے ہیں۔