افغانستان میں طالبان باغیوں کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے ایک امریکی سویلین کو چھڑانے میں بہادری کی داستان رقم کرنے پر، پیر کے روز سیل ایڈورڈ بائرز کو ’میڈل آف آنر‘ دیا گیا۔
صدر براک اوباما نے ’سینئر چیف اسپیشل وارفیر آپریٹر‘، بائرز کو لڑاکا کارروائی کے دوران بہادری کا غیر معمولی مظاہرہ کرنے پر ملک کا سب سے بڑا تمغہٴ شجاعت عطا کیا۔ اب تک کُل پانچ ’سیلز‘ کو یہ تمغہ دیا گیا ہے۔
دسمبر 2012ء میں کی گئی اِس فوجی کارروائی کا حوالہ دیتے ہوئے، وائٹ ہاؤس نے سیل بائرز کے ’بہادری کے کارناموں‘ اور ’بے غرض‘ خدمات کی نشاندہی کی۔ پینٹاگان نے اِس جَری کارنامے کا ذکر اِس طرح کیا کہ متعدد دشمنوں کا سامنا کرتے ہوئے، سیل نے شجاعت کا مظاہرہ سے ’’دو بدو مقابلہ کیا‘‘ اور کامیاب رہے۔
’سی این این‘ کی رپورٹ کے مطابق، ایک دفاعی اہل کار سے موصول ہونے والی صیغہٴ راز میں نہ رہنے والی ایک رپورٹ کے مطابق، بائرز نے ’’بہادری کی بہترین صلاحیت، غیر معمولی شجاعت اور اپنی جان پر کھیل کر‘‘ وار کیا، اور اِس بات میں ’’کوئی شک نہیں کہ وہ اِس تمغے کے حقدار ہیں‘‘۔
دلیپ جوزف، ایک امریکی معالج ہیں، جنھیں مشرقی افغانستان میں برغمال بنایا گیا تھا، جنھیں چھڑانے کی کارروائی کے دوران بحریہ کے ’اسپیشل وارفیر ڈولپمنٹ گروپ‘ کے ایک اور رُکن کی موت واقع ہوئی، جس دستے کا عام طور پر ’سیل ٹیم سکس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
’اَن کلاسی فائیڈ سمری‘ کے مطابق، بائرز بچاؤ کے دستے کے دوسرے رُکن تھے جو اُس عمارت میں داخل ہوئے جہاں جوزف یرغمال تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ٹیم کا پہلا رُکن جونہی اندر داخل ہوا دشمن نے اُنھیں اے کے 47 کا فوری فائر کرکے ہلاک کردیا، جب کہ بائرز نے داخل ہوتے ہی محافظ پر فوری فائر کھولا جب کہ دوسرے گارڈ کو دو بدو لڑائی میں چِت کیا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جب بچاؤ ٹیم کے دیگر ارکان نے جوزف سے اُن کی شناخت پوچھی، بائرز نے ایک نامانوس شخص کو انگریزی بولتے ہوئے سنا، وہ ’’فوری طور پر اُن کی طرف لپکے، اور اُنھیں امریکی یرغمالی کے ہمراہ کھینچ کر باہر نکالا، ایسے میں جب ساتھ والے کمرے سے گولیاں چل رہی تھیں‘‘۔