پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی دعوت پر 28 سے 30 اپریل تک سعودی عرب کا دورہ کریں گے۔
وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد شہباز شریف اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر روانہ ہوں گے۔ دفترِ خارجہ نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ اس دورے کے دوران کابینہ کے اہم اراکین سمیت اعلیٰ سطح کا وفد بھی وزیر اعظم کے ہمراہ ہوگا۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان قریبی تعلقات رہے ہیں اور یہ روایت رہی ہے کہ پاکستان کے ماضی میں منتخب ہونے والے وزرائے اعظم اپنا پہلا بیرونی دورہ سعودی عرب کا ہی کرتےرہے ہیں۔
شہبازشریف بھی اسی روایت کے مطابق ایک ایسے وقت سعودی عر ب کا دورہ کریں گے جب پاکستان کو بڑھتے ہوئے مالیاتی اور تجارتی خسارے کا سامنا ہے ۔
سعودی قیادت اور وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان ہونے والی دوطرفہ بات چیت کے دوران اقتصادی ، تجارتی اور سرمایہ کار ی کے شعبوں میں تعلقات کو مزید فروغ دینے کے امور زیرِ بحث آئیں گے ۔
وزیرِاعظم شہباز شریف سعودی قیادت سے سعودی عرب میں پاکستانی افرادی قوت کے لیے روزگار کے مزید مواقع فراہم کرنے کے معاملے پر بھی تبادلہ خیال کریں گے جہاں پہلے ہی لگ بھگ 20 لاکھ پاکستانی روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں۔
یادر رہے کہ شہباز شریف اور اپنے بھائی سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے ساتھ جلاوطنی کے دور میں ایک عرصے تک سعودی عرب میں مقیم رہے تھے۔ اس دوران وہ سعودی شاہی خاندان کے بھی قریب رہے، اس کے علاوہ وہ سعودی ثقافت اور روایات سے بھی باخوبی آگا ہ ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے مطابق وزیراعظم کے دورۂ سعودی کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان اسٹرٹیجک شراکت داری پر مبنی معاہدوں پر اتفاق رائے بھی متوقع ہے۔
کیاسعودی عرب پاکستان کو مزید مالی معاونت فراہم کر سکتا ہے؟
سعودی عرب نے گزشتہ برس زرِمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے پاکستان کو تین ارب ڈالر فراہم کیے تھے۔ اس کے ساتھ سعودی عرب نے پاکستان کو ایک سال کے لیے تیل کی مؤخر ادائیگی پر خریداری کے لیے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی سہولت بھی فراہم کر رکھی ہے۔
پاکستان کے سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کے مطابق شہباز شریف کی حکومت کی یہ کوشش ہو گی کہ سعودی عرب کی طرف سے فراہم کردہ تین ارب ڈالر کی مالی معاونت اور مؤخر ادائیگی پر تیل کی خریدار ی کے لیے فراہم کردہ سہولت میں مزید کچھ عرصے کی توسیع مل جائے۔
ان کے بقول پاکستان کی یہ کوشش بھی ہو گی کہ سعودی عرب کی طرف سے ایک یاد دو ارب ڈالر کی مزید مالی معاونت مل جائے۔
اگرچہ پاکستان کی موجودہ حکومت کی طرف سے اس سے متعلق کوئی عندیہ نہیں دیا گیا لیکن وفاقی وزیرِ اطلاعات مریم اورنگ زیب کا کہنا ہے کہ وزیرِاعظم کے دورۂ سعودی عرب کے دوران اس حوالے سے پاکستان کو خوش خبری مل سکتی ہے۔
یادر ہے کہ ماضی میں پاکستان کو جب بھی تجارتی اوربجٹ خسارے کی وجہ سے اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو سعودی عرب ، متحد ہ عرب امارات او ر قطر اسلام آباد کو مالی معاونت فراہم کرتے رہے ہیں۔ لیکن معاشی ماہر حفیظ پاشااسے مستقل حل نہیں سمجھتے۔
'مالی معاونت مسائل کا مستقل حل نہیں'
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حفیظ پاشا نے کہا کہ جب تک حکومتِ پاکستان اپنی معیشت کو درپیش بنیادی مسائل کو مستقبل بنیادو ں پر حل نہیں کر لیتی اس وقت تک پاکستان کے تجارتی اور بجٹ خسارے کا معاملہ مستقل بنیادوں پر حل نہیں ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ 2018 میں جب عمران خان کی حکومت قائم ہو ئی تو اس وقت سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سے اربوں ڈالر کی مالی معانت ملی تھی لیکن اس کے باوجود ایک سال کےبعد حکومت کو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس جانا پڑا۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری شہباز شریف کے دورۂ سعودی عرب کو اہم قراردیتے ہیں۔ ان کے بقول دونوں ملکوں کے درمیان دیرینہ تعلقات ہیں اور روز گارہ کے سلسلے میں سعودی عرب میں موجود لاکھوں پاکستانی سالانہ اربوں ڈالر ترسیلاتِ زر وطن بھیجتے ہیں۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ظفر جسپال کہتے ہیں شہباز شریف سعودی عرب اور پاکستان کے باہمی تعلقات کو مزید ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے میں بہتر کردارا کر سکتے ہیں۔
بعض دیگر مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیرِاعظم شہباز شریف کے دورۂ سعودی عرب کے دوران سعودی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سی پیک اور دیگر منصوبو ں میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کیا جاسکے گا۔ لیکن حفیظ پاشا کے خیال میں ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کا معاملہ شاید اُس وقت زیر بحث آئے گا جب پاکستان میں پائیدار حکومت زیادہ عرصے کے لیے وجود میں آئے گی۔
حفیظ پاشا کے مطابق پاکستان کی موجودہ حکومت اگر جلد عام انتخابات کرانے کا کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اسے کچھ عرصے کے لیے زرِمبادلہ کے ذخائرا ور بجٹ خسارے سے نمٹنے کے لیے فوری مالی معاونت کی ضرورت ہوگی اور موجودہ حکومت کو توقع ہے کہ سعودی عرب اس معاملے میں پاکستان کی مدد کر سکتا ہے۔
یاد رہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے دورِ حکومت کے دوران اسلام آباد ا ور ریاض کے تعلقات اس وقت سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے جب پاکستان نے ترکی اور ملائیشیا کے زیادہ قریب تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی تھی۔ جس کے بعد سعودی عرب اور بعض دیگر عرب ممالک میں یہ تاثر پیدا ہو گیا تھا کہ پاکستان ترکی اور ملائیشیا کے ساتھ مل کر مسلم ممالک کا ایک الگ بلاک قائم کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔