ترکی کے شہر استنبول میں ایک پولیس اسٹیشن پر ایک خاتون بمبارکے خود کش حملے کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور ایک زخمی ہوگیا ہے۔
پولیس حکام کے مطابق واقعہ استنبول کے معروف سیاحتی ضلعے سلطان احمد کے ایک پولیس اسٹیشن میں منگل کو پیش آیا جس کی تاحال کسی تنظیم یا گروہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ مبینہ خاتون بمبار انگریزی میں یہ کہتے ہوئے تھانے میں داخل ہوئی تھی کہ اس کا بیگ کھو گیا ہے جس کی رپورٹ درج کرانے کے لیے وہ پولیس کے پاس آئی ہے۔
پولیس حکام کے مطابق تھانے میں داخل ہونے کے بعد خاتون نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور ایک زخمی ہوگیا جب کہ خاتون بمبار بھی موقع پر ہی ہلاک ہوگئی۔
استنبول کے گورنر نے صحافیوں کو بتایا ہے خاتون بمبار کی تاحال شناخت نہیں ہوسکی ہے اور پولیس واقعے کی تفتیش کر رہی ہے۔
خود کش حملہ استنبول کے جس علاقے میں کیا گیا وہ ایک مقبول سیاحتی مقام ہے جہاں سیاحوں کی دلچسپی کے کئی اہم مراکز – بشمول نیلی مسجد اور آیا صوفیہ عجائب گھر – واقع ہیں۔
شہر کے اہم سیاحتی مقامات کے نزدیک پولیس پر گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ہونے والا یہ دوسرا حملہ ہے۔
اس سے قبل جمعرات کو استنبول میں آبنائے باسفورس کے کنارے واقع خلافتِ عثمانیہ کے دور کے ایک تاریخی محل پر تعینات پولیس اہلکاروں پر ایک شخص نے دستی بم پھیکنے کے بعد فائرنگ کردی تھی جس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔
اس محل میں کچھ عرصہ قبل تک ترک صدر رجب طیب ایردوان کے دفاتر بھی قائم تھے جنہیں اب یہاں سے منتقل کردیا گیا ہے۔
دستی بم حملے کی ذمہ داری بائیں بازو کے نظریات کی حامل ایک کالعدم مارکسسٹ تنظیم 'ریوولوشن پیپلز لبریشن پارٹی – فرنٹ (ڈی ایچ کے پی - سی)' نے قبول کرلی تھی۔
یہ تنظیم اس سے قبل 2013 میں دارالحکومت انقرہ میں قائم امریکی سفارت خانے پر ہونے والے خود کش حملے میں ملوث ہونے کا دعویٰ بھی کرچکی ہے جس میں سفارت خانے کا ایک محافظ ہلاک ہوگیا تھا۔