پاکستانی حکام حالیہ برسوں میں افغانستان سے ملحقہ اپنی سرحد کی نگرانی بڑھانے پر بات کرتے رہے ہیں اور اس ضمن میں پہلے سرحدی چوکیوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا اور اب پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام شروع کیا گیا ہے۔
افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحد کو ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے اور اس کی طوالت لگ بھگ 2600 کلومیٹر ہے۔
اگرچہ افغانستان کی حکومت کی طرف سے حالیہ پیش رفت پر کوئی باضابطہ ردعمل تو سامنے نہیں آیا لیکن افغان حکام کہتے رہے ہیں کہ اُن کے ملک نے پاکستان کے ساتھ سرحد ’ڈیورنڈ لائن‘ کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔
جب کہ پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ’ڈیورنڈ لائن‘ ایک حل شدہ معاملہ ہے۔
افغان رکن پارلیمنٹ اور نیشنل سالیڈیریٹی موومنٹ آف افغانستان نامی سیاسی جماعت کے سربراہ سید اسحاق گیلانی نے افغانستان سے ٹیلی فون پر وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان نے سرحد پر باڑ لگانے میں اُن کے بقول جلد بازی کی ہے۔
’’میرے خیال میں پاکستان کی تھوڑی سے جلد بازی ہے کیوں کہ ابھی تک پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن پر تنازعات ہیں۔۔۔۔ میرے خیال میں دو مسلمان اور بھائی ملکوں کے لیے یہ اچھا نہیں ہے کہ وہ سرحد سیل کریں اور زور سے کام لیں۔‘‘
اسحاق گیلانی کا کہنا ہے کہ کئی علاقوں میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کے آرپار ایک ہی خاندان کے لوگ آباد ہیں۔
’’جو گاؤں ہے، گاؤں کے اندر سے ڈیورنڈ لائن گزرتی ہے۔ ایک طرف ایک بھائی ہے، دوسری طرف دوسرا بھائی ہے اگر یہ بھائیوں کو تقسیم کرتے ہیں ۔۔۔ میرے خیال میں یہ پاکستان کے لیے بھی اچھا نہیں ہو گا۔‘‘
بعض مبصرین کا بھی کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے سرحد پر باڑ لگانے سے دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
دشوار گزار علاقے میں باڑ لگانا جہاں ایک مشکل کام ہے وہیں اس کے لیے مالی وسائل کی فراہمی بھی حکومت کے لیے ایک چیلنج ہو گا۔
تاحال یہ واضح نہیں کہ کس مد سے یہ اخراجات ادا کیے جائیں گے۔
ایک پاکستانی کاروباری شخصیت امین ہاشوانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دفاع اور سلامتی کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے پیسے کا خرچ ایک طویل المدتی سرمایہ کاری ہے۔
امین ہاشوانی کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے باعث پاکستانی معیشت کو گزشتہ 15 سالوں میں لگ بھگ 120 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔
’’سکیورٹی کے لیے کوئی بھی سرمایہ کاری اگر آپ کرتے ہیں تو وہ لانگ ٹرم انویسٹمینٹ ہے۔۔۔۔ ہماری سکیورٹی بہتر ہو گی تو یہ ایک (ایک اچھی سرمایہ کاری ہے۔) ۔۔۔۔اگر آپ کے سکیورٹی حالات صحیح نہیں ہوتے ہیں تو آپ ترقی نہیں کر سکیں گے۔۔۔۔ تو اس میں آپ کو یہی دیکھنا ہو گا کہ عام آدمی کے درمیان رابطے اور افغانستان و پاکستان کے بیچ تجارتی تعلقات پر اثر نہیں پڑنا چاہیئے۔‘‘
پاکستان میں حزب مخالف کی ایک بڑی جماعت کے شریک چیئرمین اور ملک کے سابق صدر آصف زرداری نے پاکستان کی طرف سے سرحد پر باڑ لگانے کے بارے میں ایک تحریری بیان میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ باہمی مشاورت کے ساتھ سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات سے دہشت گردوں کے سرحد آر پار آمد و رفت کے بارے میں دونوں ملکوں کی طرف سے ایک دوسرے پر لگائے جانے والے الزامات کا سلسلہ بند ہو سکے گا۔
پاکستان کی طرف سے سرحد پر باڑ لگانے کے اس عمل کا آغاز ایک ایسے وقت کیا گیا جب امریکہ میں صدر ٹرمپ کی انتظامیہ میکسیکو کے ساتھ اپنی سرحد پر دیوار بنانے کا کہہ چکی ہے۔
اسلام آباد کی ایک مارکیٹ میں موجود نوجوان محمد عثمان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ پاکستان نے کسی ملک سے متاثر ہو کر افغانستان سے ملحقہ اپنی سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔
’’دیکھیں میرا گھر ہو گا میں اپنے گھر کے ارد گرد باڑ لازمی لگاؤں گا تاکہ میرے گھر کو کوئی بھی نقصان کسی بھی طریقے سے نا پہنچا سکے۔۔۔۔ میرے خیال سے اگر ہم کسی سے متاثر ہو کر کرتے تو دنیا میں ایسی سو چیزیں اور بھی ہوتی ہیں جن سے ہم متاثر ہوتے ہیں لیکن ہم وہ کرتے نہیں ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ فروری کے وسط میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں ایک 120 سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے تھے۔
پاکستان کا دعویٰ ہے کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی سرحد پار افغانستان فرار ہونے والے پاکستانی دہشت گردوں نے کی، اور کابل حکومت سے ایسے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
افغانستان حکومت بھی پاکستان پر ایسے ہی الزامات لگاتی رہی ہے کہ اب بھی افغان طالبان کی پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں۔
دونوں ہی ملک خود پر لگنے والے ایسے الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں
سلامتی کے خدشات کے سبب گزشتہ ماہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنے تمام سرحدی راستے بند کر دیئے جو تقریباً ایک ماہ کی بندش کے بعد رواں ماہ کھولے گئے۔
دو روز قبل 25 مارچ کو قبائلی علاقوں کے دورے کے موقع پر پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام ترجیحی بنیاد پر باجوڑ اور مہمند ایجنسی میں شروع کیا گیا ہے، جہاں فوج کے مطابق سلامتی کے زیادہ خدشات ہیں۔
فوج کے بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ معمول کی فضائی نگرانی کے علاوہ اضافی ٹیکنیکل نگرانی کے آلات بھی نصب کیے جائیں گے۔