پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ افغان سرحد پر پاڑ لگانے کا کام شروع کر دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں باجوڑ اور مہمند ایجنسیوں کے علاقوں میں باڑ لگانے کو ترجیجی دی جائے گی کیونکہ اس سرحد پر خطرات زیادہ ہیں۔
فوجی کے تعلقات عامہ کے شعبے آئی ایس پی آر کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ باڑ لگانے کے علاوہ فضائی نگرانی کے ساتھ ساتھ زمینی نگرانی کے آلات بھی نصب کیے جائیں گے۔
پاکستانی فوج کے سربراہ نے کہاکہ پاکستانی فوج ملک کے دفاع کے لیے اپنے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سرحد کی نگرانی کو بہتر بنانے کے لیے افغان حکام کے ساتھ دوطرفہ سیکیورٹی بندوبست بھی کیا جائے گا۔
جنرل باجوہ نے مہمند اور اورکزئی ایجنسی کے سرحدی علاقوں کا دورہ کیا۔ انہیں سرحدی سیکیورٹی ، سرحد پار دہشت گردی اور پاکستانی چوکیوں پر حالیہ دہشت گرد حملوں کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
دی نیشن میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں باوثوق سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ فرنٹیئر کور نے افغانستان سے ملحق فاٹا اور صوبہ خیبر پختون خوا کی 1300 کلومیٹر لمبی سرحد پر باڑ لگانے کا کام شروع کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق سرحد کے اہم مقامات پرباڑ لگانے کے لیے مختلف وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان نے بلوچستان میں1100 کلومیٹر طویل چمن قندھار سرحدپر باڑ کی تنصیب پہلے ہی مکمل کر لی ہے۔
سن 2013 میں بلوچستان میں افغان سرحد پر 11 فٹ گہری اور 14فٹ چوڑی خندق کی کھدائی مکمل کر لی گئی تھی جس سے سرحدی بندوبست میں مدد ملی ہے۔
دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات گذشتہ دوبرسوں کے دوران انتہائی کم تر سطح پر آچکے ہیں۔
دونوں ملک اپنے ہاں ہونے والے دہشت گردحملوں کا الزام سرحد پار چھپے ہوئے عسکریت پسندوں پر عائد کرتے ہیں۔
افغانستان سرحد پر باڑ کی تنصیب کی مخالفت کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحد جسے ڈیونڈر لائن کا نام دیاجاتا ہے، تصفیہ طلب ہے۔