واشنگٹن —
عراق میں فرقہ ورانہ کشیدگی میں شدت آگئی ہے اور جمعرات کو مسلسل تیسرے روز بھی فرقہ ورانہ تشدد کے واقعات اور جھڑپوں میں لگ بھگ 50 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
جھڑپوں کا سلسلہ منگل کو حویجہ نامی قصبے میں سرکاری فورسز کی جانب سے سنی مسلمانوں کے ایک احتجاجی کیمپ پر دھاوے سے ہوا تھا جس کے نتیجے میں شروع ہونے والی جھڑپوں میں 40 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
ہلاکتوں کے بعد عراق کے سنی اکثریتی علاقوں میں کشیدگی میں اضافہ ہوگیا تھا جب کہ کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے تھے۔
حکام کے مطابق گزشتہ تین روز سے جاری فرقہ ورانہ جھڑپوں میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
تازہ ہلاکتیں دارالحکومت بغداد سے 390 کلومیٹر شمال میں واقع شہر موصل میں ہوئی ہیں جہاں بدھ کی شب مسلح افراد کے جتھوں نے شہر کے مغربی علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد مساجد کے لائوڈ اسپیکروں کے ذریعے سنی مسلمانوں کو "جنگ" میں شامل ہونے کی دعوت دی۔
عراق کے فوجی اور وفاقی پولیس کے افسران کے مطابق فوج نے علاقے میں واقع اس پولیس ہیڈکوارٹر کا محاصرے کے بعد کنٹرول حاصل کرلیا ہے جہاں مسلح افراد نے 17 لوگوں کو یرغمال بنا رکھا تھا۔
پولیس سربراہ کے مطابق فوج کے ساتھ لڑائی میں 31 شدت پسند مارے گئے ہیں۔
مقامی مردے خانے کے ایک اہلکار نے 15 پولیس اہلکاروں کی میتیں بھی مردہ خانے لائے جانے کی تصدیق کی ہے۔
خیال رہے کہ سنی مسلح جنگجووں نے گزشتہ روز بھی سلیمان پیک نامی قصبے پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد بھاری اسلحے سے لیس اور ٹینکوں پہ سوار فوجی دستوں نے قصبے کا محاصرہ کرلیا ہے۔
فوجی حکام نے شدت پسندوں کو ہتھیار ڈالنے اور قصبے سے نکل جانے کے لیے 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا ہے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں حملے کی دھمکی دی ہے۔
عراق کے سنی اکثریتی علاقوں میں شدید کشیدگی کے باعث بغداد سے کرکک جانے والی مرکزی شاہراہ بھی بند ہے۔
دارالحکومت سے 50 کلومیٹر مغرب میں واقع شہر فلوجہ میں بھی مسلح شدت پسندوں نے پولیس ہیڈکوارٹر پر حملہ کیاہے جس میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد تاحال سامنے نہیں آئی ہے۔
پولیس کے مطابق ملک کے وسطی شہر نجف میں ہونے والی ایک کار بم دھماکے میں تین افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ عراق کے سنی مسلمان گزشتہ سال دسمبر سے حکومت کے خلاف ہفتہ وار احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں جس کے باعث ملک میں فرقہ ورانہ کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
مظاہرین عراق کے وزیرِاعظم نوری المالکی کی سربراہی میں قائم شیعہ حکومت پر ملک کی سنّی اقلیت کو دیوار سے لگانے اور انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
حالیہ کشیدگی کے بعد عراق کے وزیرِ اعظم المالکی نے جمعرات کو ٹی وی پر قوم سے خظاب کرتے ہوئے خبردار کیا کہ عراق انتہائی خطرے سے دوچار ہے۔
انہوں نے ملک کے مذہبی اور قبائلی رہنمائوں پر زور دیا کہ وہ ان لوگوں کو لگام دیں جو، ان کے بقول، ملک کو دوبارہ تصادم کی طرف لے جانا چاہ رہےہیں۔
جھڑپوں کا سلسلہ منگل کو حویجہ نامی قصبے میں سرکاری فورسز کی جانب سے سنی مسلمانوں کے ایک احتجاجی کیمپ پر دھاوے سے ہوا تھا جس کے نتیجے میں شروع ہونے والی جھڑپوں میں 40 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
ہلاکتوں کے بعد عراق کے سنی اکثریتی علاقوں میں کشیدگی میں اضافہ ہوگیا تھا جب کہ کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے تھے۔
حکام کے مطابق گزشتہ تین روز سے جاری فرقہ ورانہ جھڑپوں میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
تازہ ہلاکتیں دارالحکومت بغداد سے 390 کلومیٹر شمال میں واقع شہر موصل میں ہوئی ہیں جہاں بدھ کی شب مسلح افراد کے جتھوں نے شہر کے مغربی علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد مساجد کے لائوڈ اسپیکروں کے ذریعے سنی مسلمانوں کو "جنگ" میں شامل ہونے کی دعوت دی۔
عراق کے فوجی اور وفاقی پولیس کے افسران کے مطابق فوج نے علاقے میں واقع اس پولیس ہیڈکوارٹر کا محاصرے کے بعد کنٹرول حاصل کرلیا ہے جہاں مسلح افراد نے 17 لوگوں کو یرغمال بنا رکھا تھا۔
پولیس سربراہ کے مطابق فوج کے ساتھ لڑائی میں 31 شدت پسند مارے گئے ہیں۔
مقامی مردے خانے کے ایک اہلکار نے 15 پولیس اہلکاروں کی میتیں بھی مردہ خانے لائے جانے کی تصدیق کی ہے۔
خیال رہے کہ سنی مسلح جنگجووں نے گزشتہ روز بھی سلیمان پیک نامی قصبے پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد بھاری اسلحے سے لیس اور ٹینکوں پہ سوار فوجی دستوں نے قصبے کا محاصرہ کرلیا ہے۔
فوجی حکام نے شدت پسندوں کو ہتھیار ڈالنے اور قصبے سے نکل جانے کے لیے 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا ہے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں حملے کی دھمکی دی ہے۔
عراق کے سنی اکثریتی علاقوں میں شدید کشیدگی کے باعث بغداد سے کرکک جانے والی مرکزی شاہراہ بھی بند ہے۔
دارالحکومت سے 50 کلومیٹر مغرب میں واقع شہر فلوجہ میں بھی مسلح شدت پسندوں نے پولیس ہیڈکوارٹر پر حملہ کیاہے جس میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد تاحال سامنے نہیں آئی ہے۔
پولیس کے مطابق ملک کے وسطی شہر نجف میں ہونے والی ایک کار بم دھماکے میں تین افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ عراق کے سنی مسلمان گزشتہ سال دسمبر سے حکومت کے خلاف ہفتہ وار احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں جس کے باعث ملک میں فرقہ ورانہ کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
مظاہرین عراق کے وزیرِاعظم نوری المالکی کی سربراہی میں قائم شیعہ حکومت پر ملک کی سنّی اقلیت کو دیوار سے لگانے اور انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
حالیہ کشیدگی کے بعد عراق کے وزیرِ اعظم المالکی نے جمعرات کو ٹی وی پر قوم سے خظاب کرتے ہوئے خبردار کیا کہ عراق انتہائی خطرے سے دوچار ہے۔
انہوں نے ملک کے مذہبی اور قبائلی رہنمائوں پر زور دیا کہ وہ ان لوگوں کو لگام دیں جو، ان کے بقول، ملک کو دوبارہ تصادم کی طرف لے جانا چاہ رہےہیں۔