رسائی کے لنکس

یمن: حدیدہ میں پھر جھڑپیں، امن معاہدے پر عمل معطل


حوثی باغی حدیدہ صوبے میں واقع الصلیف کی بندرگاہ پر تعینات ہیں۔
حوثی باغی حدیدہ صوبے میں واقع الصلیف کی بندرگاہ پر تعینات ہیں۔

یمن کے ساحلی شہر حدیدہ میں حوثی باغیوں اور عرب ملکوں کی حمایت یافتہ یمنی حکومت کی حامی فورسز کے درمیان ایک بار پھر جھڑپیں شروع ہوگئی ہیں۔

جھڑپوں کا آغاز بدھ کو ایسے وقت ہوا جب حوثی باغیوں کا شہر سے انخلا کا سلسلہ جاری تھا۔ باغیوں نے جنگ بندی کے معاہدے کے تحت ہفتے کو حدیدہ اور دو دیگر بندرگاہوں سے انخلا شروع کیا تھا جو لڑائی کے باعث معطل ہوگیا ہے۔

جھڑپوں کے آغاز سے ایک روز قبل حوثی باغیوں نے سعودی عرب پر کیے جانے والے ایک ڈرون حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں سعودی حکام کے مطابق دو آئل پمپنگ اسٹیشنز کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

متحدہ عرب امارات کے ایک سینئر اہلکار نے خبردار کیا ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں قائم عرب اتحاد حوثی باغیوں کے کسی بھی حملے کا سختی سے جواب دے گا لیکن ساتھ ہی اتحاد حدیدہ میں قیامِ امن کے لیے طے پانے والے معاہدے کی پاسداری بھی کرے گا۔

یمنی حکومت اور حوثی باغیوں کے نمائندوں نے گزشتہ سال دسمبر میں سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں کئی روز تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد لڑائی بند کرنے اور حدیدہ سے اپنے اپنے دستے واپس بلانے پر اتفاق کیا تھا۔

معاہدے پر عمل درآمد کے پہلے مرحلے میں بیشتر حوثی باغی حدیدہ، الصلیف اور راس عیسیٰ کی بندرگاہوں سے نکل گئے ہیں جس کے بعد سعودی عرب کی حمایت یافتہ مقامی فورسز کو بھی حدیدہ کے مشرقی نواحی علاقے سے پسپا ہونا ہے۔

لیکن حدیدہ میں اقوامِ متحدہ کے نگران مشن کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل مائیکل لولس گارڈ نے کہا ہے کہ لڑائی کے بعد سرکاری اور ان کی اتحادی فورسز کا انخلا رک گیا ہے۔

عالمی ادارے کے حکام کا کہنا ہے کہ سرکاری فورسز کے مکمل انخلا سے قبل حوثی باغیوں اور یمنی حکومت کو معاہدے کے دوسرے مرحلے کی تفصیلات طے کرنا ہوں گی تاکہ فورسز کے انخلا کے بعد علاقے کے سکیورٹی انتظام اور متبادل فورسز کی تعیناتی پر اتفاقِ رائے ہو سکے۔

حدیدہ یمن کا چوتھا بڑا شہر اور بحیرۂ احمر پر واقع اس کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق یمن میں جاری خانہ جنگی سے متاثرہ افراد کے لیے 70 فی صد سے زائد خوراک اور امداد حدیدہ کی بندرگاہ کے ذریعے ہی آتی ہے لیکن شہر میں جاری لڑائی کے باعث اس امداد کو آگے پہنچانے میں دشواری ہو رہی ہے۔

اسٹاک ہوم معاہدے کے تحت فریقین کی فورسز کے شہر سے نکل جانے کے بعد اس کا کنٹرول اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں قائم فورس سنبھالے گی جو ان راستوں کو کھلا روکنے پر مامور ہوگی جن کے ذریعے امدادی سامان ملک کے دیگر علاقوں تک بھیجا جائے گا۔

یمن میں خانہ جنگی کا آغاز 2014ء میں اس وقت ہوا تھا جب ایران کے حمایت یافتہ حوثی شیعہ قبائل نے ملک کی مرکزی حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرلیا تھا۔

خانہ جنگی 2015ء میں اس وقت شدت اختیار کرگئی تھی جب سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ان کے دیگر اتحادی عرب ممالک نے صدر عبد ربہ منصور ہادی کی حکومت کی حمایت میں حوثیوں کے خلاف فضائی اور زمینی حملے شروع کردیے تھے جو تاحال جاری ہیں۔

یمن میں جاری لڑائی میں اب تک 10 ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں جب کہ بعض امدادی اداروں کا خیال ہے کہ ملک میں جاری قحط اب تک پانچ سال سے کم عمر کے 85 ہزار بچوں کی جان لے چکا ہے۔

اقوامِ متحدہ یمن کو دنیا کا بدترین انسانی بحران قرار دے چکی ہے۔ عالمی ادارے کے مطابق یمن بری طرح قحط کا شکار ہے اور اس کی 80 فی صد آبادی مناسب خوراک، صاف پانی اور طبی سہولتوں سے محروم ہے۔

XS
SM
MD
LG