رسائی کے لنکس

بچوں کو والدین سے جدا کرنے کی پالیسی پر میلانیا ٹرمپ کی تنقید


صدر ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے ہیں۔ خاتونِ اول میلانیا ٹرمپ اور ان کا بیٹا بیرن بھی موجود ہیں۔ (فائل فوٹو)
صدر ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے ہیں۔ خاتونِ اول میلانیا ٹرمپ اور ان کا بیٹا بیرن بھی موجود ہیں۔ (فائل فوٹو)

امریکی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اپریل اور مئی کے دوران امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر لگ بھگ دو ہزار بچوں کو ان کے والدین سے الگ کیا جاچکا ہے۔

امریکہ کی خاتونِ اول میلانیا ٹرمپ نے غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والے تارکینِ وطن سے ان کے بچوں کو جدا کرنے کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے امریکہ کے امیگریشن قوانین میں تبدیلی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

اتوار کی شب خاتونِ اول کے دفتر سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں میلانیا ٹرمپ نے کہا ہے کہ انہیں امریکی سرحد پر خاندانوں کو ایک دوسرے سے جدا کیے جانے سے "نفرت" ہے۔

بیان میلانیا ٹرمپ کی ترجمان اسٹیفنی گریشام نے جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ خاتونِ اول سمجھتی ہیں کہ امریکہ کو ایک ایسا ملک ہونا چاہیے جہاں نہ صرف قوانین پر عمل کیا جائے گا بلکہ "وہاں دل کی بھی حکمرانی ہو۔"

ترجمان کے مطابق خاتونِ اول کو امید ہے کہ دونوں فریقین "بالآخر کامیاب امیگریشن اصلاحات پر متفق ہوجائیں گے۔"

امریکہ میں سیاسی پناہ کے خواہش مند میکسیکو امریکہ کی سرحد پر کھڑے انٹرویوکے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔
امریکہ میں سیاسی پناہ کے خواہش مند میکسیکو امریکہ کی سرحد پر کھڑے انٹرویوکے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔

"دونوں فریقین" سے میلانیا ٹرمپ کی مراد ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز ہیں جن کے درمیان امیگریشن اصلاحات کے معاملے پر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔

گو کہ میلانیا ٹرمپ کے بیان میں بظاہر یہ تاثر دیا گیا ہے کہ یہ معاملہ کانگریس کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے، لیکن ڈیموکریٹ ارکانِ کانگریس کا موقف ہے کہ کسی قانون میں یہ اجازت نہیں دی گئی کہ سرحد پر تارکینِ وطن کے بچوں کو ان کے والدین سے الگ کردیا جائے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے غیر قانونی طورپر امریکہ کی سرحد عبور کرنے والے تارکینِ وطن کے خلاف گزشتہ ماہ ایک نئی پالیسی کا اعلان کیا تھا جس کے تحت بلا اجازت سرحد پار کرنے والے افراد کے خلاف فوجداری مقدمات چلائے جائیں گے۔

پالیسی کے نفاذ کے بعد امریکہ میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے تارکینِ وطن کی پہلے سے کہیں زیادہ تعداد کو گرفتار کرکے جیل منتقل کیا جارہا ہے جس کے سبب ان کے ہمراہ آنے والے بچوں کو ان کے والدین سے الگ کردیا جاتا ہے۔

امریکی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اپریل اور مئی کے دوران امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر لگ بھگ دو ہزار بچوں کو ان کے والدین سے الگ کیا جاچکا ہے۔

امریکی حکومت کی اس نئی پالیسی کے خلاف کئی حلقے شدید احتجاج کر رہے ہیں۔
امریکی حکومت کی اس نئی پالیسی کے خلاف کئی حلقے شدید احتجاج کر رہے ہیں۔

ان میں سے بیشتر بچوں کو میکسیکو کی سرحد کے نزدیک امریکی حکام کے زیرِ نگرانی چلنے والے ایک کیمپ میں رکھا گیا ہے جب کہ ان کے والدین کو مختلف جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے۔

اس سے قبل امریکی حکام اپنے بچوں کے ہمراہ غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والے تارکینِ وطن کے مقدمات امیگریشن عدالتوں کو بھیج دیا کرتے تھے جو ان افراد کو پناہ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتی تھیں۔

ٹرمپ حکومت کی اس نئی پالیسی کو امریکہ کے کئی حلقے کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور امریکی ذرائع ابلاغ میں والدین سے جدا کیے جانے والے بچوں کی روتی اور بلکتی ویڈیوز اور تصاویر آنے کے بعد اس تنقید میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

ٹرمپ حکومت پر کی جانے والی اس تنقید میں امریکہ کی ایک سابق خاتونِ اول لارا بش کی آواز بھی شامل ہوگئی ہے جنہوں نے اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' کے لیے لکھے جانے والے اپنے ایک کالم میں اس پالیسی کو "ظالمانہ" اور "غیر اخلاقی" قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی وجہ سے ان کا دل پارہ پارہ ہوگیا ہے۔

لیکن صدر ٹرمپ اور ان کے قریبی مشیروں کا موقف ہے کہ اس پالیسی کے ذمہ دار ڈیموکریٹ ارکانِ کانگریس ہیں جو ان کے بقول امیگریشن قوانین میں صدر کی تجویز کردہ اصلاحات منظور کرنے پر آمادہ نہیں ہو رہے۔

XS
SM
MD
LG