انسان کے عشروں پرانے اس خواب کو تعبیر ملنے کا وقت بہت قریب آ گیا ہے کہ وہ آسمان پر کاریں اسی طرح اُڑا سکے جس طرح وہ سٹرکوں پر دوڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
جاپان کی ایک کمپنی 'سکائی ڈرائیو' نے پہلی مرتبہ محدود وقت کے لیے ایک ایسی کار اڑانے کا کامیاب تجربہ کیا ہے جس پر ایک شخص بھی سوار تھا۔
سکائی ڈرائیو، اڑنے والی کار بنانے کے منصوبے پر کام کرنے والی پہلی کمپنی نہیں ہے۔ بلکہ دنیا بھر میں لگ بھگ ایک سو کمپنیاں اس سے ملتے جلتے منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ تاہم پہلے قابل عمل کامیاب تجربے کا اعزاز سکائی ڈرائیو کو ہی حاصل ہوا ہے۔
جمعے کو جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ موٹر سائیکل طرز کی ایک چھوٹی سی گاڑی زمین سے چند فٹ اوپر فضا میں بلند ہوتی ہے اور ایک محدود جگہ پر چار منٹ تک مسلسل پرواز کرتی ہے، کار میں ایک شخص بھی سوار ہے۔
سکائی ڈرائیو کمپنی کے سربراہ توموہیرو فوکوزاوا نے اپنی اڑنے والی کار کی کامیاب اڑان کے بعد کہا ہے کہ یہ گاڑی 2023 تک حقیقت کا روپ دھار لے گی اور اسے عام لوگ اڑانا شروع کر دیں گے۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت سب سے مشکل مرحلہ اس کی پرواز اور سوار کی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔
انہوں نے خبررساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو بتایا کہ اس وقت دنیا بھر میں ایک سو سے زیادہ کمپنیاں اڑنے والی کار بنانے کے منصوبوں پر کام کر رہی ہیں، لیکن چند ہی کمپنیوں کو ڈرائیور کے ساتھ کار اڑانے میں کامیابی ملی ہے۔
فوکوزاوا نے بتایا کہ اب تک کے تجربات میں ان کی کار نے 10 منٹ تک پرواز کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ وہ پرواز کا دورانیہ کم ازکم 30 منٹ تک بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس کے بعد اسے چین جیسے ملکوں میں برآمد کیا جا سکے گا۔
اڑنے والی کار کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہوائی جہاز کے برعکس عمودی پرواز کرتی ہے اور اسے کسی رن وے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ عمودی انداز میں کسی بھی جگہ، حتٰی کہ عمارت کی چھت پر بھی اتر سکتی ہے۔
اس کار کے ذریعے لوگ ٹریفک میں پھنسے بغیر اپنی منزل مقصود پر پہنچ سکیں گے اور اپنا وقت بچا سکیں گے۔ کار کو اڑانے کے لیے کسی پائلٹ کی بھی ضرورت نہیں ہو گی اور اس کے اڑنے اور اترنے کا سارا نظام کمپیوٹر کے ذریعے کنٹرول ہو گا۔
تاہم ان کاروں کے مارکیٹ میں آنے کے بعد اس میں استعمال ہونے والی بیٹریوں کے سائز اور ایئر ٹریفک کنٹرول جیسے مسائل درپیش ہوں گے جن کے لیے قواعد و ضوابط بنانے پڑیں گے۔
کارنیگی میلن یونیورسٹی کے روبوٹکس انسٹی ٹیوٹ کے ایک پروفیسر سنجیو سنگھ نے 'اے پی' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں اب بھی کئی رکاوٹیں ہیں۔ مثلاً اگر کار کی قیمت دس لاکھ ڈالر ہے تو اسے کوئی بھی نہیں خریدے گا۔ اگر وہ محض پانچ منٹ پرواز کرتی ہے تو بھی اسے کوئی نہیں لے گا۔ اور اگر دوران پرواز اس کے گرنے کے خطرات زیادہ ہوں گے تو بھی اسے کوئی خریدار نہیں ملے گا۔ اسے مارکیٹ میں لانے سے پہلے ان تمام مسائل پر قابو پانا ہو گا۔
سکائی ڈرائیو نے اڑنے والی کار پر اپنے کام کا آغاز 2012 میں کیا تھا۔ جاپان کی کئی بڑی کمپنیاں اسے فنڈز فراہم کر رہی ہیں جن میں کار ساز کمپنی ٹویوٹا، الیکٹرانکس کی کمپنی پیناسونک اور ویڈیو گیمز بنانے والی کمپنی باندائی نامکو شامل ہیں۔
ماہرین کو توقع ہے کہ 2030 کے عشرے میں اڑنے والی کاروں کا تجارتی پیمانے پر استعمال شروع ہو جائے گا اور گنجان آباد علاقوں میں جہاں گھنٹوں ٹریفک جام رہتا ہے، ان کا استعمال بڑھ جائے گا۔