دنیا کی تین بڑی کریڈٹ ایجنسیوں میں شمار ہونے والی 'فچ ریٹنگ' نے امریکہ کی کریڈٹ ریٹنگ کو ’ٹرپل اے‘ سے کم کرکے ’ڈبل اے پلس‘ کر دیا ہے۔
فچ ریٹنگ نے اس کی وجہ گزشتہ دو دہائیوں میں امریکہ میں وفاقی، ریاستی اور مقامی سطح پر بڑھتے ہوئے قرضوں اور حکمرانی کے معیار میں مسلسل گراوٹ کو قرار دیا ہے۔
فچ ریٹنگ کی یہ درجہ بندی منگل کو سامنےآئی جب امریکہ کی ریٹنگAAA سے کم کرکے AA+ کی گئی۔نئی درجہ بندی اب بھی سرمایہ کاری کے درجوں میں شمار ہوتی ہے۔
فچ ریٹنگ کے فیصلے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم، اخراجات اور ٹیکسوں کے معاملے پر واشنگٹن میں بار بار تعطل امریکی ٹیکس دہندگان کو مہنگا پڑ سکتا ہے۔
کم کریڈٹ ریٹنگ، وقت کے ساتھ ساتھ امریکی حکومت کے لیے قرض میں اضافہ کر سکتی ہے۔
یہ امریکہ کی تاریخ میں صرف دوسری بار ہے کہ اس کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کی گئی ہے۔
سال 2011 میں ریٹنگ ایجنسی ’اسٹینڈرڈ اینڈ پورز ‘نے حکومت کی قرض لینے کی حد پر ایک طویل لڑائی کے بعد امریکہ سے اس کی AAA ریٹنگ چھین لی تھی۔
اس وقت امریکی حکومت کے احتساب کے دفتر نے 2012 کی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا تھاکہ 2011 کے بجٹ میں تعطل نے اس سال خزانے کے قرض لینے کے اخراجات میں ایک ارب 30 کروڑ ڈالر کا اضافہ کیاتھا۔
تاہم اس کے ساتھ ساتھ، امریکی معیشت کےانتہائی بڑے سائز اور وفاقی حکومت کے تاریخی استحکام نے اس کی قرض لینے کی لاگت کو کم رکھا ہے۔
فچ کے فیصلے کی وجوہات اور ردِ عمل
فچ نے 24 مئی کو متنبہ کیا تھا کہ وہ حکومت کی ٹرپل-اے ریٹنگ کو ختم کرسکتی ہے کیوں کہ اس وقت کانگریس قرض لینے کی حد میں دوبارہ اضافے کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔
تقریباً ایک ہفتے بعد وہ معاہدہ طے پایا تھاجس نے قرض لینے کی حد کو معطل کر دیا تھا اور اگلے دہائی کے دوران حکومتی خسارے میں تقریباً 1.5 ٹریلین ڈالر کی کٹوتی کر دی۔
فچ نےامریکہ میں اخراجات اور ٹیکس پالیسی کے حوالے سے سیاسی تفریق کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کو اپنے فیصلے کی کلیدی وجہ قرار دیا ہے۔
اس نے کہا ہےکہ اعلیٰ درجہ بندی والے دوسرے ممالک کے مقابلے میں’ امریکی گورننس ‘میں کمی آئی ہے ۔فچ نے "بار بار قرض کی حد میں پیدا ہونے والے تعطل اور آخری منٹ کے فیصلوں کو بھی نوٹ کیا ہے۔"
بائیڈن انتظامیہ کے عہدیداروں نے فِچ کے اس اقدام پر کڑی تنقید کی ہے۔ ٹریژری سیکریٹری جینٹ ییلن نے کہا کہ یہ فیصلہ "من مانا" اور پرانے اعدا و شمار پر مبنی ہے۔
ییلن نے توجہ دلائی کہ امریکی معیشت وبا کے دوران ہونے والی کساد بازاری سے تیزی سےبحال ہوئی ہے، بے روزگاری کی شرح نصف صدی کی کم ترین سطح کے قریب ہے اور اپریل تا جون کی سہ ماہی میں معیشت 2.4 فی صد کی ٹھوس سالانہ شرح سے آگے بڑھ رہی ہے۔
تاہم کانگریس کے رکن بوب گڈ نے سوشل میڈیاپلیٹ فارم پرکہا ہےکہ تمام ڈیموکریٹس اور وہ ری پبلکنز جو مالی ذمہ داری کی بات کرتے ہیں لیکن قرض کی حد میں لامحدود اضافے کو ووٹ دیتے ہیں کریڈٹ ریٹنگ میں اس گراوٹ کے ذمہ دار ہیں۔
چھے جنوری کے واقعات
فِچ نے بائیڈن انتظامیہ کے اہلکاروں کو مطلع کیا تھاکہ 6 جنوری 2021 کو کیپٹل ہل پر ہونے والی انتشار، امریکہ کی ریٹنگ میں تنزلی کے فیصلے میں ایک عنصر تھی۔
ا نتظامیہ اور ریٹنگ ایجنسی کے درمیان ہونے والی بات چیت سے واقف ایک شخص کے مطابق اس کی وجہ یہ تھی کہ اس سے ایک غیر مستحکم حکومت کی نشاندہی ہوتی تھی۔
اس شخص نے، جس نے اس نجی بات چیت کا انکشاف کرنے کے لیے اپنا نام ظاہر نہیں کیا ، بتایا کہ فِچ نے پچھلے سال ایک رپورٹ تیار کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ 2018 سے 2021 کے دوران حکومت کے استحکام میں کمی آئی تھی، لیکن بائیڈن کے صدارت سنبھالنے کے بعد استحکام میں اضافہ ہوا ہے۔
فِچ کے فیصلے کا ایک اور عنصر دیگر خدشات بھی ہیں کہ امریکی معیشت اس سال کے آخری تین مہینوں اور اگلے سال کے شروع میں "معمولی کساد بازاری" کا شکار ہوگی۔
فیڈرل ریزرو کے ماہرین اقتصادیات نے اس موسم بہار میں اسی طرح کی پیش گوئی کی تھی لیکن پھر جولائی میں اسے تبدیل کرکے کہا کہ ترقی کی رفتار سست ہوگی لیکن کساد بازاری سے بچا جاسکے گا۔
اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات ایسو سی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔
فورم