افغانستان کے مغربی صوبے ہرات میں پولیس اور فوج کی چوکیوں پر طالبان کے حملوں میں نو فوجی اہلکار اور ایک پولیس افسر ہلاک ہوگیا ہے۔
حملے جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب ہرات کے ضلعے شین ڈنڈ میں کیے گئے جن میں چار افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
شین ڈنڈ ضلعے کے گورنر شکر اللہ شاکر نے برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ چوکیوں پر تعینات اہلکاروں نے حملہ آوروں کا مقابلہ کیا اور دونوں کے درمیان جھڑپیں کئی گھنٹوں تک جاری رہیں۔
صوبائی پولیس کے سربراہ محمد زمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ طالبان کے حملے کے بعد فوری طور پر اضافی نفری علاقے میں پہنچ گئی تھی جب کہ فضائی مدد بھی طلب کرلی گئی تھی جس کے باعث کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد حملہ آوروں کو بالآخر علاقے سے پسپا کردیا گیا۔
تاحال یہ واضح نہیں کہ فورسز کی جوابی کارروائی میں طالبان کا کتنا جانی نقصان ہوا ہے۔
چند روز قبل شین ڈنڈ میں ہی ہونے والے ایک بم دھماکے میں چار بچوں سمیت چھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
طالبان نے بدھ کی شب صوبہ غزنی کے ایک ضلعے پر حملہ کرنے کے بعد ضلعی گورنر کو کئی پولیس اور انٹیلی جنس اہلکاروں سمیت قتل کردیا تھا۔
طالبان خواجہ عمری نامی ضلعے کے مرکزی شہر پر کچھ دیر تک قابض رہنے کے بعد پسپا ہوگئے تھے۔
افغانستان میں عموماً موسمِ بہار کے آغاز کے ساتھ ہی طالبان کے حملوں میں شدت آجاتی ہے۔ گرم موسم کے باعث پہاڑوں پر برف پگھلنے سے پہاڑی راستے اور درے کھل جاتے ہیں جس کی وجہ سے طالبان جنگجووں کو نقل و حرکت اور گوریلا کارروائیوں میں آسانی ہوتی ہے۔
رواں سال بھی سرد موسم میں کمی آتے ہی طالبان نے ملک کے مختلف حصوں میں کئی بڑے حملے کیے ہیں جن میں اب تک درجنوں افراد مارے جاچکے ہیں۔
اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں رواں سال کےا بتدائی تین ماہ کے دوران دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہونے والے عام افغان شہریوں کی تعداد گزشتہ سال کی پہلی سہ ماہی میں مرنے والوں کے برابر ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صورتِ حال میں بہتری نہیں آئی ہے۔