پاکستان کے صوبے بلوچستان میں حالیہ مون سون بارشوں سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 170 تک پہنچ گئی ہے جب کہ ایک ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔امدادی کارروائیوں میں مصروف اداروں کو خدشہ ہے کہ سیلابی ریلوں میں بڑی تعداد میں لوگوں کے لاپتا ہونے کے باعث ہلاکتوں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
صوبے میں سب سے زیادہ ہلاکتیں دارالحکومت کوئٹہ میں ہوئی ہیں جہاں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک 20 افراد جان سے جا چکے ہیں۔ ہلاکتوں میں دوسرا نمبر ضلع لسبیلہ کا ہے جہاں 16 افراد اب تک ہلاک ہوئے ہیں۔
صوبائی قدرتی آفات کے ادارے (پی ڈی ایم اے) کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے کے 34 میں سے 33 اضلاع حالیہ بارشوں اور سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں کوئٹہ کے علاوہ لسبیلہ، ژوب، قلعہ سیف اللہ، نوشکی، آواران، چمن، ماشکیل، لورالائی، ڈیرہ بگٹی، کیچ، جھل مگسی، پشین، سبی اور دیگر اضلاع شامل ہیں۔
سیلاب سے ہلاک ہونے والوں میں 72 مرد، 43 خواتین اور 55 بچے شامل ہیں۔
پی ڈی ایم اے بلوچستان کےشعبہ ایمرجنسی سیل کے انچارج محمد اسلم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف کا کام جاری ہے اور پی ڈی ایم اے کے رضا کار ضلعی انتظامیہ کے ہمراہ متاثرہ علاقوں میں موجود ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کوئٹہ شہر اور اس کے نواحی علاقوں میں بارشوں اور سیلاب کے باعث 700 مکان مکمل طور پر منہدم ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ضلع جھل مگسی میں 325، لسبیلہ میں 300، آواران میں 300، خضدار میں 250، کیچ میں 220 جب کہ پشین میں 170 مکانات مکمل طور پر منہدم ہوچکے ہیں۔
انچارج ایمرجنسی سیل کے مطابق صوبے میں مجموعی طور پر 15 ہزار سے زائد مکانات کو مکمل یا جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔
دوسری جانب سیلاب متاثرین اب بھی حکومتی امداد نہ ملنے کی شکایات کر رہے ہیں۔
کوئٹہ کے علاقے مشرقی بائی پاس کی بلوچ کالونی کے متاثرین کا کہنا ہے کہ کئی روز گزرنے کے باوجود اکثر خاندان کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ایک متاثرہ شخص عبدالوحید نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ ایک ماہ کا عرصہ ہونے کو ہے مگر بلوچ کالونی اور سریاب کے علاقوں میں عوام مشکلات سے دوچار ہیں اور حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔
ان کے بقول سیلاب میں ان کا سارا قیمتی سامان بہہ گیا ہے، مکانات بھی منہدم ہوگئے ہیں۔ ان کی زندگی کی تمام جمع پونجی سیلاب کی نذر ہوگئی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان کے نقصانات کا ازالہ کرے اور متاثرین کو راشن اور دیگر سامان فراہم کرے۔
صوبے میں بارشوں اور سیلاب سے زراعت کا شعبہ بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں مجموعی طور پر 19 ہزار ایکٹر زرعی زمینیں متاثر ہوئی ہیں۔ جس کے باعث گندم، کپاس، پیاز ، ٹماٹر اور دیگر فصلیں تباہی کا شکار ہیں اور زمیںداروں کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔
ضلع پشین کے علاقے کلی کمالزئی کے زمیندار ہدایت اللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پشین میں حالیہ بارشوں سے کلی ملکیار، شخالزئی، ڈب خانزئی، حمید آباد منزکی اور دامان کے علاقوں کو نقصان پہنچا ہے۔
ان کے بقول بارشوں اور سیلاب سے کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں جب کہ متعدد علاقوں میں لگے سولر پینلز اور ٹیوب ویلوں کو نقصان پہنچا ہے۔
ہدایت اللہ کا کہنا تھا کہ علاقے کے لوگوں کی اکثریت کا ذریعہ معاش زراعت ہے۔ بارشوں اور سیلاب سےزمینداروں کو لاکھوں کا نقصان ہوا ہے اور اس تباہی کے اثرات کئی برسوں تک موجود رہیں گے۔
پی ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں مجموعی طور پر زرعی زمینوں پر نصب تین ہزار سولر پینلز، 23 ٹیوب ویلز اور بجلی کے 63 کھمبوں کو نقصان پہنچا ہے۔ اس کے علاوہ اب تک مجموعی طور پر 23 ہزار کے قریب مویشی سیلاب میں بہہ کر ہلاک ہوچکے ہیں جس سے گلہ بانوں کو کروڑوں کا نقصان ہوا ہے۔
لوگ اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کارروائیوں میں مصروف
دوسری جانب بارش سے متاثرہ علاقوں میں غیرسرکاری اداروں اور این جی اوز کو امدادی سامان کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
بلوچستان کی سماجی کارکن حمیدہ نور نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب کے دوران بلوچستان کے سیکیورٹی زون کے علاقوں میں خراب مواصلاتی نظام اور سیکیورٹی خدشات کے باعث امدادی کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں سیلاب متاثرین کی مشکلات دوسرے علاقوں سے زیادہ ہیں۔ ان کے بقول ان علاقوں میں آواران، نوشکی، جھل مگسی اور خضدار کے کچھ علاقے شامل ہیں جہاں فلاحی ادارے امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہتے ہیں مگر وہاں ان کو رسائی نہیں مل رہی ہے۔
حمیدہ نور کے مطابق آواران جو اس وقت بلوچستان میں سیکیورٹی کے حوالے سے سب سے زیادہ شورش زدہ علاقہ ہے، وہاں تقریباً آٹھ یونین کونسلز آفت زدہ ہیں اور سیلاب سے شدید متاثر ہوئی ہیں لیکن وہاں امداد نہیں پہنچی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ''میری آواران کے متاثرہ افراد سے بات ہوئی کہ انہیں اب تک کیا امداد ملی ہے۔جس پر مقامی لوگوں نے بتایا کہ ان کے علاقوں میں اب تک کوئی امدادی ٹیمیں نہیں پہنچی ہیں۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ایک دوسرے کی مدد کررہے ہیں۔ ''
ان کے بقول'' ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں کسی بھی جنگ زدہ علاقے میں اگر کوئی قدرتی آفت آتی ہے تو وہاں لوگوں کو ریلیف دیا جاتا ہے مگر آواران میں صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ دیگر علاقوں کی طرح آواران کے متاثرہ علاقوں میں بھی امداد اور بحالی کا کام کرے۔''
وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ
اس سے قبل محکمۂ صحت بلوچستان نے کہا تھا کہ پری مون سون بارشوں کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد بلوچستان کے 16 اضلاع میں وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ ہے۔
بلوچستان میں عالمی ادارۂ صحت اور دیگر نجی اداروں کا کہنا ہے کہ صوبے کے کئی اضلاع میں گیسٹرو، دست اور اسہال کی بیماری اور اس کی خطرناک شکل ہیضہ پہلے سے پھیلی ہوئی تھی۔ تاہم بارشوں اور سیلاب کے بعد ان بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق صرف ایک ماہ میں چھ ہزار 312 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جب کہ اب تک مجموعی طور پر 13 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔
دوسری جانب چیف سیکریٹری بلوچستان عبدالعزیز عقیلی نے جمعرات کو مقامی ضلعی انتظامیہ کے ہمراہ ضلع لسبیلہ میں سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر اعلان کردہ ریلیف پیکج کے تحت ہلاک افراد کے لواحقین میں امدادی چیک تقسم کیے۔