ڈیرہ اسماعیل خان کے کئی علاقوں میں سیلابی ریلا داخل
خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے وانڈہ بلوچ کی آس پاس کی آبادیوں میں سیلابی ریلا داخل ہو گیا ہے جس کی وجہ سے مکینوں نے محفوظ مقام کی جانب نقل مکانی شروع کر دی ہے۔
سیلابی ریلا رتہ کلاچی اسٹیڈیم سے کچھ ہی دوری پر بہہ رہا ہے جہاں سیلاب متاثرین کے لیے کیمپ بھی بنایا گیا ہے اور وہاں لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔
وزیرِ اعلی خیبرپختونخوا محمود خان آج ڈیرہ اسماعیل خان کا دورہ کریں گے جس دوران وہ سیلابی صورتِ حال اور متاثرہ علاقوں کا جائزہ لیں گے۔
۔
بارش جاری رہی تو ڈیمز کے اسپل ویز کھولنا پڑیں گے: مشیر داخلہ بلوچستان
مشیر داخلہ بلوچستان میر ضیاء اللہ لانگو نے خبردار کیا ہے کہ اگر کوئٹہ میں اسی طرح بارش کا سلسلہ جاری رہا تو ڈیم سے پانی کے اخراج کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔
ضیاء اللہ لانگو نے قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر جنرل نصیر ناصر کے ہمراہ سیلابی پانی سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔
اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کوئٹہ میں شدید بارش کے باعث سیلابی صورتِ حال کا سامنا ہے اگر یہی صورتِ حال رہی تو ڈیمز سے پانی کا اخراج کیا جائے گا۔
مشیر داخلہ کے بقول پی ڈی ایم اے کا تمام عملہ، افسران اور مشینری سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں موجود ہے۔
کوئٹہ میں مسلسل 30 گھنٹے بارش، شہر کے مختلف علاقے پانی میں ڈوب گئے
بلوچستان کے صدر مقام کوئٹہ میں جمعرات کو مسلسل 30 گھنٹے ہونے والے موسلا دھار بارش کے بعد شہر کے نشیبی علاقے زیرِ آب آ گئےہیں ۔
کوئٹہ سے وائس آف امریکہ کے نمائندے مرتضیٰ زہری کے مطابق شہر کے نواحی علاقے نواں کلی بائی پاس، اسپنی روڈ، خروٹ آباد اور پشتون آباد میں رات گئے بڑا سیلابی ریلہ گھروں میں داخل ہو گیا جس کی وجہ سے متعدد کچے مکانات منہدم ہو گئے۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے [پی ڈی ایم اے] کی ریسکیو اور ریلیف ٹیمیں موقع پر پہنچ گئی ہیں۔ ادارے کے ڈپٹی ڈائریکٹر فیصل طارق نے بتایا کہ نواں کلی میں پانی میں پھنے ہوئے لگ بھگ 100 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے گا جب کہ مزید 150 کو بھی جلد ریسکیو کر لیا جائے گا۔
فیصل طارق کا مزید کہنا تھا کہ علاقے میں ہیوی مشینری پہنچا دی گئی ہے جس کی مدد سے پانی کی گزر گاہوں کو کلیئر کیا جا رہا ہے۔
پورا پاکستان سیلاب سے متاثر ہوا ہے، صورتِ حال سنگین ہے: شیری رحمان
پاکستان کی موسمیاتی تبدیلی کی وفاقی وزیر شیری رحمان نے کہا ہے کہ پاکستان میں مون سون بارشوں میں اضافہ ہوا ہے اور ایک کے بعد ایک اسپیل آ رہے ہیں۔ اس وقت آٹھواں اسپیل آ چکا ہے جب کہ لاکھوں لوگوں متاثر ہوئے ہیں ہے اور وہ بغیر چھت کے رہ رہے ہیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے جنوبی علاقے بلوچستان اور سندھ بارشوں سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ کئی اضلاع اس وقت سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ قومی سطح پر ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اس وقت صورتِ حال سنگین ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دریائے سندھ میں اس وقت دونوں کناروں پر آبادیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ 2010 میں سیلاب میں دریا کے ایک جانب پانی سے علاقے متاثر ہوئے تھے۔ تمام ادارے متاثرین کی مدد میں مصروف ہیں۔
مون سون بارش اور سیلاب کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ماحولیاتی اثرات کے باعث سیلاب سے سنگین نوعیت کا نقصان ہوا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ستمبر میں بھی بارش کے مزید اسپیل آ سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے مقامات کا تعین کیا جا رہا ہے جہاں سے متاثرین کی مدد کی جا سکے۔ متاثرین کی رہائش اور خوراک کے حوالے سے کمی محسوس کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔
سیلابوں ریلوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سکھر بیراج اور تونسہ بیراج میں پانی بھر چکا ہے اور اب پانی آبادیوں کی جانب جا رہا ہے۔ ملک کے ہر شہر میں فوج نے بھی مدد کے لیے بیس کیمپ بنا لیے ہیں۔ مختلف علاقوں میں کھجور، کپاس سمیت دیگر فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ مون سون میں ایسی صورتِ حال کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔
اموات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیلاب سے 913 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا بھی پاکستان کی مدد کرے۔ یہ ایک غیر متوقع اور غیر معمولی بارش ہے۔ پاکستان بھی دیگر ممالک کی مشکل وقت میں مدد کرتا رہا ہے۔
ان کے مطابق پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت سیاسی معاملات نہیں یہ سیلاب ہے۔ لاکھوں لوگ خوراک اور چھت کے بغیر رہ رہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس وقت وسائل کی کمی اور فقدان ہے۔ سڑکیں اور ٹرین کا نظام تباہ ہوا ہے۔ ستمبر یا اگلے مہینوں کے لیے ہنگامی تیاری کی جا سکتی ہے البتہ آئندہ برسوں کے لیے صوبوں کو اس حوالے سے تیاری کرنی ہو گی۔ موسمیاتی تبدیلی اس قدر تیزی سے ہو رہی ہے کہ ایک کے بعد ایک اس کے اثرات سامنے آ رہے ہیں۔
سیلاب سے مستقبل کے نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے شیری رحمان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آنے والے وقت میں خوارک کا مسئلہ ہوگا کیوں کہ سیلاب کے بعد زمین آئندہ فصل کے لیے تیار نہیں ہوگی۔ اب آئندہ برسوں کے لیے سائنسی بنیادوں پر تیاری اور اس سے نمٹنے کے انتظامات کی ضرورت ہوگی۔ دریائے سندھ میں سال بھر ایک خشک سالی رہتی ہے البتہ اب اس میں سیلاب کی صورت حال ہے۔