پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں اور ہنگامی صورتِ حال کے بعد سامنے آنے والی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو قدرآتی آفات کے اثرات سے نمٹنے کی 'کم سے کم سکت' رکھتے ہیں۔
لائڈ رجسٹر فاؤنڈیشن ورلڈ رسک پول کی رواں ہفتے جاری ہونے والی یہ رپورٹ ایک لاکھ 25 ہزار سے زائد افراد کے انٹرویوز کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ یہ انٹرویو گیلپ کی جانب سے دنیا کے 121 ممالک میں گزشتہ برس کے دوران کیے گئے تھے تاکہ ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات کا اندازہ لگایا جاسکے۔
عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان میں شدید موسمی بارشیں ہوئیں جس سے ملک میں سیلاب کی صورتِ حال پیدا ہوئی۔ اقوامِ متحدہ اور مقامی حکام کا کہنا اس آفت کے نتیجے میں 1600 افراد ہلاک ہوئے ہیں جس میں کم از کم 575 بچے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تین کروڑ 30 لاکھ افراد جون کے وسط سے ہونے والی بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔
رواں ہفتے برطانیہ سے تعلق رکھنے والے اس عالمی فلاحی ادارے کی جانب سے جاری ہونے والے سروے میں اس طرح کی آفات سے نمٹنے اور بحالی کے عمل میں پاکستان کی صلاحیت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ پانچ میں سے تین پاکستانی (60 فی صد) جو آفت کاسامنا کرچکے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ سب تیز بارشوں یا سیلاب کی وجہ سے ہوا تھا ۔
اس سروے سے قبل 22 کروڑ لوگوں کے اس ملک میں بیشتر افراد نے 12 مہینوں میں سے ایک دن سے زیادہ وقت اہم وسائل کے بغیر گزارا۔تین چوتھائی یا 71 فی صد کا کہنا تھا کہ وہ بغیر بجلی کے رہ رہے تھے۔ ایک تہائی سے زیادہ (36 فی صد) کا کہنا تھا کہ وہ طبی امداد یا ادویات تک رسائی سے قاصر ہیں جب کہ 42 فی صد کے مطابق وہ ٹیلی فون تک رسائی حاسل نہیں کرسکتے ہیں۔
برطانوی خیراتی ادارے میں ایویڈنس اور انسائٹ کی ڈائریکٹر سارہ کمبرز کہتی ہیں کہ وہ ممالک جو قدرآتی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ان کے پاس اکثر اس طرح کے واقعات سے نمٹنے اور بحالی کے ذرائع کم ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کی تحقیق پالیسی سازوں کی توجہ سپورٹ کی ان اقسام کی طرف مبذول کرا سکتی ہے جس سے مسقبل کی ممکنہ آفات سے نمٹنے کی صلاحیت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے رپورٹ میں کہا کہ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو آنے والے برسوں میں اور بھی زیادہ زندگیوں اور صحت کو خطرے میں ڈال دیا جائے گا۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ مون سون کی بارشوں نے 'ایک صدی پرانا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔'' جب کہ کچھ حصوں میں بارشیں 30 سال کی اوسط سے پانچ گنا زیادہ ہوئی ہیں۔ بارشوں سے لاکھوں افراد بے گھر ہوئے ہیں جن میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جنہیں زندگی بچانے کے لیے انسانی امداد کی ضرورت ہے۔
انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں سیلاب متاثرین کو ہنگامی امداد کی فراہمی کی کوشش کر رہی ہیں لیکن حکام کا کہنا ہے کہ بہت سی سڑکیں اور پل پانی میں بہہ گئے ہیں یا تباہ ہوگئے ہیں۔
دوسری جانب سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مختلف وبائی امراض بھی پھوٹ پڑے ہیں۔ سندھ میں حکام نے جمعہ کو کہا کہ صوبے میں ہزاروں اضافی ڈاکٹرز اور پیرامیڈکس کو تعینات کردیا گیا ہے تاکہ پانی سے پھیلنے والی اور دیگر بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔ ان امراض سے گزشتہ دو ماہ سے زائد عرصے میں 300 سے زیادہ سیلاب متاثرین ہلاک ہوچکے ہیں۔
اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ ڈائریا، ٹائیفائڈ اور ملیریا کے کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں کیوں کہ لاکھوں سیلاب متاثرین کھڑے پانی کے قریب عارضی پناہ گاہوں یا کھلے آسمان تلے رہ رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ نے بدھ کو ایک بیان میں خبردار کیا ہے کہ سیلاب کے بعد پاکستان میں بیماریوں کا پھیلاؤ دوسری آفت بن سکتا ہے۔ ادھر پاکستانی حکام کے مطابق گزشتہ ہفتے سندھ میں ڈائریا کے ایک لاکھ 34 ہزار سے زائد جب کہ ملیریا کے 44 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔