یہ 16 جنوری 2016 کی بات ہے جب کراچی کی پیر الٰہی بخش کالونی کے رہائشی 44 سالہ شہری عرفان بصارت صدیقی کو ان کے گھر سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی وردری میں ملبوس اہلکار اپنے ساتھ لے گئے۔
عرفان بصارت صدیقی کی بہن کا دعویٰ ہے کہ یہ سندھ رینجرز کے اہلکار تھے جن کی سرکاری گاڑیوں پر کوئی نمبر پلیٹ نہیں تھی۔ یہ اہلکار گھر کا دروزاہ توڑ کر داخل ہوئے اورعرفان بصارت کی والدہ کے سامنے انہیں ساتھ لے گئے تھے۔ اہلِ خانہ کے بقول انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے کا نام نہ لیں اور یہ بھی کہا گیا کہ عرفان کو جلد رہا کردیا جائے گا۔
لیکن اہلِ خانہ اس دوران اغوا کی ایف آئی آر درج کرانے تھانے پہنچے مگر پولیس نے ایف آئی آر کٹوانے میں لیت و لعل سے کام لیا۔ اہلِ خانہ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ موقع پر موجود ایس ایچ او نےخبردار کیا کہ اگر آپ ایف آئی آر کٹواتے ہیں تو آپ کے دیگر بھائی بھی ہیں۔
اس دوران اہلِ خانہ نے سندھ ہائی کورٹ میں عرفان بصارت صدیقی کے لاپتا ہونے پر پٹیشن دائر کی اور رینجرز اہلکاروں کے خلاف اغوا کی ایف آئی آر درج کرانے کا بھی اصرار کیا جاتا رہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عرفان بصارت کے بڑے بھائی عمران بصارت کو بھی ایسے ہی حالات میں اٹھالیا گیا جنہیں تین ماہ بعد رہائی ملی۔
عرفان بصارت صدیقی، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے حیدرآباد سے رکن قومی اسمبلی شیخ صلاح الدین کے برادر نسبتی ہیں۔ جب کہ عرفان صدیقی اور ان کا خاندان، خاص طور پر ان کی والدہ ماضی میں ایم کیو ایم کی خواتین ونگ کی انتہائی فعال کارکن رہی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی شیخ صلاح الدین نے بتایا کہ اپنے برادر نسبتی کی رہائی کے لیے انہوں نے تقریباً ہر دروازہ کھٹکھٹایا، حتیٰ کہ سابق وزیرِ دفاع پرویز خٹک سے بھی ملاقات کی۔
انہوں نے بتایا کہ ہر جگہ انہوں نے یہی کہا کہ عرفان بصارت نے اگر کوئی جرم کیا ہے تو انہیں کڑی سے کڑی سزا دے دی جائے تو بھی انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن اس کے لیے قانونی طریقۂ کار اور ان پر الزامات کے ثبوت عدالت کو دکھا دیے جائیں۔ لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی اور آخر کار رواں ماہ کی 14 تاریخ کو عرفان بصارت کی لاش ضلع سانگھڑ کے علاقے شاہ ہور چاکر سے ملی۔
متحدہ قومی موومنٹ کے دیگر دو لاپتا کارکنوں کی تشدد زدہ لاشیں بھی صوبے کے مختلف علاقوں سے ملیں۔ شیخ صلاح الدین کے مطابق عرفان بصارت کی لاش ایک سے زیادہ دن پرانی تھی۔ لاش کو وصول کرنے سے قبل ہی پوسٹ مارٹم بھی کردیا گیا جب کہ ان کی لاش اس قدر خراب حالت میں تھی کہ اسے زیادہ دیر تک نہیں رکھا جاسکتا تھا اس لیے جلد تدفین کردی گئی۔
لاپتا افراد کی لاشیں ملنے کی آزادانہ تحقیقات کے وعدے اور حکومتی بے بسی کا اظہار بھی
ادھر تین لاپتا افراد کی لاشیں ملنے کے معاملے پر وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر معاملے کی آزادانہ تحقیقات کرانے کا اعلان کیا ہے۔ وزیرِ داخلہ نے واقعہ میں ملوث ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی یقین دہانی بھی کرائی اور ذمہ داران کو قانون کے کٹہرے میں لاکر ان کے خلاف سخت ایکشن لینے کا بھی اعلان کیا ہے۔
چند روز قبل وزیرِ داخلہ اور جبری گمشدگی اور لاپتا افراد کے حوالے سے وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی کے بعض اراکین کراچی بھی پہنچے۔ انہوں نے ایم کیو ایم کے مبینہ لاپتا ارکان کے اہلِ خانہ سے بھی ملاقات کی اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو لاپتا کردینا سب سے بڑا جرم ہے اور ایسا کرنے والے آئین اور قانون کے دشمن ہیں۔
وزیر داخلہ نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ لاپتا افراد کی ذمہ داری وفاقی و صوبائی حکومت کی ہے کہ وہ ان کا کھوج لگائیں اور عدالتوں میں پیش کریں۔ رانا ثناء اللہ نے مزید کہا کہ یہ دکھ صرف ایم کیو ایم کا نہیں سب کا ہے بطور ایک قوم یہ بات نہ صرف ریاست بلکہ پوری قوم لیے باعث شرمندگی ہے کہ لوگ لاپتا ہوں اور بعد میں ان کی لاشیں ان کے پیاروں کو ملیں۔
مبینہ جبری طور پر گمشدہ افراد کے کیسز کی سب سے بڑی تعداد بلوچستان میں
پاکستان میں صرف ایم کیو ایم ہی نہیں بلکہ کئی بلوچ اور سندھ قوم پرست گروپس، اہل تشیع مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ خیبر پختونخوا اور پنجاب سے بھی بڑی تعداد میں شہریوں کو جبری طور پر گمشدہ کرنے کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔
اگرچہ اس مقصد کے لیے حکومتی سطح پر جبری طور پر لاپتا افراد کے لیے کمیشن آف انکوائری کام تو کر رہا ہے جس کے پاس آٹھ ہزار سے زائد کیسز رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔ لیکن اس کی کارکردگی پر انسانی حقوق کی تنظیمیں کڑی تنقید کرتی رہی ہیں اور یہ کہا جاتا رہا ہے کہ کمیشن اپنی بنیادی ذمہ داریاں پوری کرنے میں بُری طرح ناکام رہا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی 2021 کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک سال میں ایسے واقعات سب سے زیادہ کیسز بلوچستان (1108) سے رپورٹ ہوئے جب کہ خیبرپختونخوا میں اس نوعیت کے سب سے زیادہ (1417) زیر التوا مقدمات ہیں۔ سندھ میں اس نوعیت کے 170 کیسز زیر التوا ہیں۔ اس دوران صوبے میں 40 گمشدہ افراد اپنے گھروں کو لوٹے مگر چار لاپتا افراد کی لاشوں ملیں۔
وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی برائے جبری گمشدگی کیا کررہی ہے؟
اگرچہ ریاستی ادارے بشمول فوج ملک میں کسی قسم کی جبری گمشدگی کے واقعات میں کسی کردار کی سختی سے ہمیشہ نفی کرتے آئے ہیں لیکن وزارتِ دفاع عدالتوں میں ایسے حراستی مراکز کا اقرار کرتی ہے جہاں سے بعض لاپتا افراد کا سراغ بھی ملا ہے۔
مئی 2022 میں وفاقی حکومت نے کابینہ کی ذیلی کمیٹی تشکیل دی جس کا مقصد جبری گمشدگی کے وقعات کے تدارک کے لیے پالیسی سفارشات پیش کرنا تھا۔ اس کمیٹی کی سربراہی وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کررہے ہیں۔
کمیٹی میں وفاقی وزیرِ داخلہ سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کے وزرا بھی شامل ہیں۔ کمیٹی کے کئی اجلاسوں میں انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور وکلا نے اپنی سفارشات پیش کی ہیں۔
'ذمے داروں کو جرم کا احساس دلانا ضروری ہے'
پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین اور معروف قانونی ماہر عابد ساقی کہتے ہیں کہ انہوں نے کمیٹی کو اپنی پیش کردہ تجاویز میں کہا ہے کہ جب تک اس ضمن میں قانون کو مضبوط نہیں کیا جاتا اور ذمے داروں کو اپنے جرم کا احساس نہیں دلایا جاتا، ایسے واقعات کو روکنا مشکل ہو گا۔
عابد ساقی نے مزید کہا کہ اس حوالے سے تحریکِ انصاف کی حکومت کے دور میں جبری گمشدگی کا جرم قرار دینے کا بل قومی اسمبلی سے منظور ہوا، لیکن سینیٹ سے یہ تاحال منظور نہیں ہو سکا۔
اُن کے بقول اس وقت حکومت ٹھیک سمت میں جا رہی ہے، اور انہیں اُمید ہے کہ یہ بل جلد قانون سازی کے مراحل سے گزر جائے گا۔
مسئلے کو حل کرنی کی بھرپور کوشش کریں گے؛ وزیر اعظم کا عدالت میں بیان
حال ہی میں صحافی مدثر نارو کی مبینہ جبری گمشدگی سے متعلق کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیر ِاعظم شہباز شریف کو بھی طلب کیا تھا۔ عدالت نے جبری گمشدیوں کو بڑا جرم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس بارے میں حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس ردَعمل نہیں آرہا۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ریاست کی جو ذمہ داریاں ہیں وہ پوری ہونی چاہیئں لوگ بازیاب تو ہوئے لیکن انہیں اغوا/لاپتا کرنے والوں کے خلاف کبھی کوئی ایکشن نہیں ہوا۔ یہ عدالت آئین کو دیکھے گی اس کے لیے اس سے بڑا ایشو کوئی بھی نہیں۔ وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے کوئی عذر پیش نہیں کریں گے۔ انہوں نے عدالت کو یقین دلایا کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔