انسان اپنے موڈ کا غلام ہوتا ہے جو اسے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے ہی اشاروں پر چلاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو کام اچھے موڈ کے ساتھ کیا جاتا ہے اس کے نتائج بھی بہتر نکلتے ہیں۔ جب کہ طبعیت کی بے چینی اور بیزاری کسی بھی کام کو اچھی طرح سے انجام دینے میں حائل ہو جاتی ہے۔
اگر آپ کا موڈ اکثرخراب رہتا ہے یا آپ ڈپریشن کی کیفیت میں مبتلا ہیں تو اس کی ایک وجہ آپ کی خوراک بھی ہو سکتی ہے۔
برطانوی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کھانا آپ کا موڈ بناتا ہے یعنی آپ جو بھی کھاتے ہیں اس کا اثر آپ کے دماغ پر بھی پڑتا ہے جہاں اچھے موڈ اور خوشی جیسے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
برطانوی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کھانا آپ کا موڈ بناتا ہے یعنی آپ جو بھی کھاتے ہیں اس کا اثر آپ کے دماغ پر بھی پڑتا ہے جہاں اچھے موڈ اور خوشی جیسے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
انسان کا پیٹ اس کے لیے ہمیشہ سے ایک راز رہا ہے۔ اکثر لوگ کھانا صرف پیٹ بھرنے کے لیے ہی نہیں کھاتے بلکہ وہ لذیذ کھانے کے شوقین ہوتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اس حقیقت سے نا آشنا ہیں کہ کھانا ہمیں کس قدر ذہنی آسودگی فراہم کرتا ہے۔
برطانیہ کے ایک خیراتی ادارے (الرجی یوکے) کی ایک رپورٹ کے مطابق ہم میں سے 45 فیصد لوگوں میں اپنی غذا اور مشروبات سے حساسیت ٖFood intolerance موجود ہوتی ہے۔
غذائی حساسیت کا مسئلہ کھانے کی الرجی جیسے مسئلے سے کہیں زیادہ عام ہے جس کا سب سے نقصان دہ اثر موڈ کی خرابی اور سستی جیسی کیفیت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
برطانیہ میں غذا اور مشروبات سے حساسیت کے باعث موڈ کی خرابی اور ڈپریشن کی کیفیت میں مبتلا رہنے والے ہر چار مریضوں میں سے ایک مریض ہسپتال میں داخل کرایا جاتا ہے۔ جب کہ گزشتہ پانچ سالوں میں ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کے باعث ڈاکٹر کی تجویز کردہ ڈپریشن کی ادویات کی فروخت میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
غذا اور غذائی اجزا کے باعث پیدا ہونے والی حساسیت کی جانچ کے لیے 'یورک ٹیسٹ لیبارٹری' میں ایک تحقیق کی گئی جس میں بتایا گیا ہے کہ 97 فیصد ڈپریشن کے مریض جو طبعیت کے بوجھل پن اور بیزاری جیسی کیفیت میں مبتلا تھے ان کی اس تکلیف کی وجہ غذا سے حساسیت تھی۔ 70 فیصد مریضوں کے موڈ اور ذہنی آسودگی پر اس وقت بہت واضح نتائج برآمد ہوئے جب ان کی روزمرہ کی خوراک میں ردوبدل کیا گیا۔
پیٹ کا دماغ کے ساتھ ایک الجھا ہوا تعلق ہے جو تین طریقوں پر کام کرتا ہے جن میں مدافعتی نظام, اعصابی نظام اور ہامونز کا نظام شامل ہیں۔ جب کہ جسم کا 70 فیصد قدرتی مدافعتی نظام (امیون سسٹم) ہمارے پیٹ میں موجود ہوتا ہے جو بیرونی جراثیم کو مارتا ہے اور جسم کی حفاظت کرتا ہے۔
ہمارے پیٹ میں 100 ملین سے زائد اعصابی خلیات موجود ہوتے ہیں جو ہماری ریڑھ کی ہڈی میں موجود اعصابی نظام کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ اعصابی نظام نہ صرف ہمارے نظام ہضم کے افعال کو درست رکھتا ہے بلکہ ہماری وقتی تکالیف دور کرنے کے علاوہ ہمیں ذہنی آسودگی فراہم کرنے میں بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ہم میں سے بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہوں گے کہ 90 فیصد سیروٹونن Serotonin نامی ہارمون - جو دماغ میں خوشی کے جذبات کو جنم دیتا ہے - پیٹ میں پیدا ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اکثر پیٹ کو "دوسرے دماغ" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ لوگوں میں ڈپریشن کی کیفیت کے ساتھ ساتھ سینے کی جلن، گیس اور بد ہضمی جیسی علامات کا ظاہر ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ اپنی غذا یا مشروب سے حساسیت رکھتے ہیں ۔
لہذا ایسے لوگ جنھیں اکثر و بیشتر اپنے موڈ کے خراب رہنے کی شکایت رپتی ہے انھیں کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی غذا اور مشروب پر دھیان دیں اور اپنی 'ڈائیٹ' کو تبدیل کر کے دیکھیں۔ ایسا کرنے سے انھیں نہ صرف جسمانی طور پرفوائد حاصل ہو سکتے ہیں بلکہ یہ ذہنی آسودگی کے حصول میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔