پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں غربت کی شرح دیگر صوبوں سے زیادہ اور تعلیم کی شرح سب سے کم ہے جب کہ صحت کے شعبے کی صورتحال بھی غیر تسلی بخش ہے۔
پاکستان میں شعبہ صحت کی طرف سے آغا خان یونیورسٹی کی زیراہتمام کروائے گئے ایک حالیہ سروے کے مطابق پورے پاکستان کے 20 اضلاع کے لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں جن میں سے 10 اضلاع بلوچستان میں ہیں۔
اسی تناظر میں بلوچستان کی حکومت نے آسٹریلیا کے تعاون سے صوبے کے سات اضلاع میں بچوں اور ماؤں میں غذائی نشوونما کا ایک پروگرام شروع کیا ہے۔
اس سلسلے میں کوئٹہ میں منعقدہ تقریب سے پاکستان میں آسٹریلیا کی ہائی کمشنر مارگریٹ ایڈمسن نے کہا کہ پیدائش کے بعد ایک ہزار دنوں تک بچے کو اچھی غذا کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور آسٹریلیا کی حکومت نے پاکستان میں ماﺅں اور بچوں میں خوراک کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں سات اضلاع کے بچوں کو غذائیت سے بھرپور خوراک فراہم کرنے کے لیے اقدام کیے ہیں۔
منصوبہ بندی اور ترقی کے صوبائی سیکرٹری ذوالفقار دُرانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ بلوچستان میں 16 فیصد نوزائیدہ بچے شدید غذائی کمی کا شکار ہیں اور اس صورتحال پر اگر اب توجہ نہ دی گئی تو آئندہ سالوں میں یہ تناسب مزید بڑھ جائے گا۔
"اس سلسلے میں بلوچستان حکومت نے آسٹریلیا اور عالمی بینک کے تعاون سے ایک منصوبہ تیار کیا جو تقریباً ایک ارب 45 کروڑ روپے سےزائد مالیت کا ہے۔ اس کے تحت آئندہ تین سالوں میں ہم سات اضلاع میں ماں اور بچے کی غذائی ضروریات کو بہتر کریں گے۔ حکومت پرعزم ہے کہ غذائی قلت کے معاملے پر توجہ دے۔"
ذوالفقار دُرانی کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں محکمہ صحت کا بنیادی ڈھانچہ پہلے ہی بہت کمزور تھا اور سن 2000ء سے صوبے میں بدامنی کے واقعات شروع ہوئے اور ان واقعات نے محکمہ صحت کو مزید تباہی سے دوچار کیا اور بحران بڑھتا گیا۔
تاہم انھوں نے امن و امان کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے عوام کے صحت عامہ کے معاملات کو بہتر کرنے کی کوششیں بھی تیز کر دی گئی ہیں۔