خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں مصالحتی کونسل کے نام سے جرگہ نظام بحال کیا جا رہا ہے۔ مئی 2018 میں قبائلی اضلاع کے صوبے میں انضمام کے وقت یہ نظام ختم کر دیا گیا تھا۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ ان جرگوں کے ذریعے قبائلی عوام آپس کے تنازعات حل اور علاقے میں امن و امان برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
صوبائی حکومت نے گزشتہ دنوں اعلامیے میں تمام سات قبائلی اضلاع میں جائیداد اور مالی تنازعات کے ساتھ ساتھ سماجی معاملات کے حل کے لیے تحصیل، ضلعے اور علاقے کی سطح پر مصالحتی کونسل قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
قبائلی رہنماؤں کے بقول جرگوں کی بحالی اور تمام اضلاع کے انتظامی افسران کو جرگے تشکیل دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ صوبائی حکومت کے اس اعلان کے بعد تمام قبائلی اضلاع میں جرگوں کی تشکیل کی جا رہی ہے جب کہ زیادہ تر علاقوں میں جرگوں کی تشکیل مکمل ہو چکی ہے اور اس میں شامل ارکان نے مصالحتی کونسلوں کے لیے تیار کردہ حلقے کے تحت عہدوں کا حلف بھی لے لیا ہے۔
جرگے کے ارکان
تحصیل کی سطح پر جرگے میں 40 سے 50 ارکان ہوں گے جب کہ ضلعی جرگے میں 50 سے 60 ارکان شامل ہوں گے۔
تمام سات اضلاع سے 40 -40 ارکان اضلاع کے سطح پر ہونے والے تنازعات کے حل کے لیے جرگہ میں شامل ہوں گے۔ جرگوں میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے کارکن بھی شامل کیے جانے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
پشاور سے ملحقہ ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والا ملک صلاح الدین کوکی خیل قبائلی علاقوں کے صوبے میں انضمام کے سخت مخالف رہے ہیں۔ اُنہوں نے قبائلی اضلاع میں جرگوں کی بحالی یا از سرنو تشکیل کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے قبائلی لوگوں کے دیرینہ مسائل حل ہوں گے۔
اُنہوں نے اس سلسلے میں حکومت کا شکریہ بھی ادا کیا۔
پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے رہنما اور شمالی وزیرستان سے رکن صوبائی اسمبلی میر کلاف وزیر نے کہا کہ جرگے پختون روایات کا اہم جز ہیں۔ ماضی کی طرح حکومتی ادارے ان جرگوں کے نام پر لوگوں کو تقسیم کر رہی ہے۔ جب کہ ان کے جائز آئینی اور قانونی حقوق کو عضب کرنے کی کوشش کیا جا رہی ہے۔