پاکستان میں قانون پر عمل درآمد میں کمزوری کے سبب ’جرگہ سسٹم‘ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پچھلے دنوں صوبہٴسندھ کے شہر گھوٹکی میں پتافی اور لغاری قبیلے کے درمیان قتل کے ایک تنازع پر ہونے والے جرگے میں یہ ’منفرد‘ اعلان کیا گیا کہ ’قبیلے کے سرداروں کا خون عام قبائلی کے خون سے سات گنا زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔‘
اسی جرگے کے حوالے سے یہ اطلاعات بھی ہیں کہ جرگہ سسٹم دیہات کے بعد اب کراچی جیسے بڑے شہر میں بھی اپنے پر پھیلا رہا ہے اور شہر کے قریب ایک درجن سے زائد علاقے ایسے ہیں جہاں عدالتی نظام اور پولیس کی موجودگی کے باوجود قتل جیسے انتہائی سنگین جرم کے فیصلے بھی جرگے میں ہونے لگے ہیں۔
انوکھا فیصلہ ۔۔ انوکھی منطق
۔۔۔ گھوٹکی میں ہونے والے ایک قتل کا تنازع دو قبیلوں پتافی اور لغاری کے درمیان فساد کی جڑ بنا ہوا تھا۔ چونکہ یہ سندھ کا نسبتاً پسماندہ علاقہ ہے۔ لہذا، یہاں عدالت، ملکی قانونی اور پولیس کے بجائے تنازعات کو جرگے میں حل کیا جاتا ہے اور گاوٴں کے عمائدین جرگے میں شامل ہوتے ہیں اور انہی کا فیصلہ پورے جرگے کا حتمی فیصلہ تصور ہوتا ہے اور کسی کو بھی اس سے انحراف کی اجازت نہیں ہوتی۔
پتافی اور لغاری۔۔ دونوں کے تنازع کا فیصلہ جرگے میں ہوا اور اعلان ہوا کہ قبیلے کے سرداروں کا خون عام قبائلی کے خون سے سات گنا زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ بات صرف اعلان تک ہی محدود نہیں رہی، بلکہ جرگے نے اپنے فیصلے میں بھی قصوروار ثابت ہونے والے قبیلے پر عام جرمانے سے سات گنا زیادہ جرمانہ عائد کیا جسے بلا چوں چرا قبول کر لیا گیا۔
گھوٹکی تنازع اور جرگے کے فیصلے سے متعلق اخبار ’ٹری بیون‘ نے بھی ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تنازع سال 2008میں ہونے والے عام انتخابات میں سندھ اسمبلی کے حلقے پی ایس سات۔گھوٹکی کے ایک پولنگ اسٹیشن پر پیش آیا جہاں ایک امیدوار کے عزیز کو نامعلوم مسلح افراد نے قتل کردیا گیا تھا۔ فیصلے کے لئے جرگہ ہوا جس میں جرگے نے دونوں جانب کے دلائل سننے کے بعد قصور وار پائے گئے قبیلے پر لاکھوں روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔
جرگے کا دعویٰ تھا کہ سردار کے خاندان کے کسی فرد کا قتل بہت بڑا جرم ہوتا ہے اس لئے اس کا جرمانہ بھی عام قبائلی کے قتل کے مقابلے میں سات گنا زیادہ ہونا چاہئے۔
جرگہ عام طور پر کسی عام قبائلی کے قتل پر8 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کرتا ہے۔ لیکن، اس معاملے میں جرگے نے قتل کا جرمانہ سات گنا زیادہ عائد کیا۔علاوہ ازیں قصور وار قبیلے کے لوگوں پر گاڑیوں کو نقصان پہنچانے قبیلے کے افراد کو زخمی کرنے پر بھی لاکھوں روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا۔
کراچی میں بھی جرگہ سسٹم قائم
جرگہ سسٹم کے حوالے سے ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ سسٹم عدم توجہی کے سبب دیہی علاقوں کے علاوہ کراچی جیسے بڑے شہروں میں بھی بلاروک ٹوک قدم جما رہا ہے۔ بلاشبہ عدالتی نظام، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی کے باوجود اس کا پھیلنا لمحہ فکریہ ہے۔
روزنامہ جنگ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی اس جانب نشاندہی کی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہر کے ایک درجن سے زیادہ علاقوں میں جرگہ فیصلے کا مجاز ہے۔ ان علاقوں میں سہراب گوٹھ، پی آئی بی کالونی، کنواری کالونی، میمن گوٹھ، قائدآباد، کیماڑی، اورنگی ٹاؤن، بنارس، بلدیہ ٹاؤن، میٹروویل، سائٹ انڈسٹریل ایریا اور دیگر مضافاتی علاقے شامل ہیں۔
رپورٹ میں اندرون شہر ایک نوعمر لڑکے اور لڑکی کے قتل کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس کے مطابق ’گذشتہ ماہ ایک لڑکے اور ایک لڑکی کو قتل کرکے لاشیں سوک سینٹر اور پی آئی بی کالونی میں پھینک دی گئیں۔ انکشاف ہوا ہے کہ دونوں کا قتل پی آئی بی کالونی میں ہونے والے ایک جرگہ فیصلے کا نتیجہ تھا جس میں لڑکی کے سسرالیوں نے الزام عائد کیا تھا کہ اس کا کسی لڑکے کے ساتھ ناجائز تعلق تھا۔‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’پولیس نے مقتول لڑکی کے والد اور چچا کو گرفتار کرلیا۔ والد کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی بیٹی کو کبھی کسی غیر لڑکے کے ساتھ نہیں دیکھا۔ لیکن، اس نے خاندانی روایات کے ہاتھوں مجبور ہوکر جرگے کے فیصلے کے مطابق اپنی بیٹی کو قتل کرنے کو کہا تھا۔‘