روسی فوج نے کیف کے ایک گاؤں کے 300 سے زائد افراد کو اسکول کی بیسمنٹ میں بند کر دیا تھا۔ اس گاؤں کا نام یہودنے بتایا جاتا ہے، جو کیف سے 140 کلومیٹر (87 میل) کے فاصلے پر واقع ہے۔
گاؤں کے مکینوں نے ایسو سی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ کئی ہفتوں تک ذہنی تناؤ اور محرومی کا شکار رہنے کے بعد ان میں سے ایک ایک کرکے ہلاک ہوتے چلے گئے۔گاؤں والوں نے بتایا کہ مارچ کے اوائل میں چرنیہی کے شمالی شہر کے گرد روسی فوج کے داخل ہوتے ہی لوگوں کو بندوق کی نوک پر سزائیں دی جاتی رہیں۔ ایک گاؤں کے باسیوں کو بیسمنٹ میں بند کر دیا گیا۔
پھر جب وہ مرنے لگے تو دیہاتیوں نے ایک کمرے میں ان ساتھیوں کے نام لکھنا شروع کیے جو ایک ایک کرکے ہمیشہ کے لیے جدا ہو رہےتھے۔ دیوار پر 18 نام درج ہوگئے۔ بچ جانے والی ایک خاتون، ولنتینا سرویان نے بتایا کہ ''ایک عمر رسیدہ شخص میرے ساتھ بیٹھا تھا۔ اس کی سانسیں اکھڑنے لگیں۔ پہلے وہ مرا اور پھر اس کی بیوی بھی دنیا سے رخصت ہو گئی ''۔
اندر گھپ اندھیرا رہتا تھا۔انھوں نے بتایا کہ ایک مرد ہلاک ہو گیا ہے اور وہ وہیں پڑا رہا، پھر اس کے ساتھ والی خاتون چل بسیں۔ وہ بھاری قد کاٹھ والی خاتون تھیں۔ اندر کا ماحول ناگفتہ بہ تھا۔
اب جب کہ اس علاقے سے روسی فوج واپس جا چکی ہے، یوکرین کے اس حصے میں واقع ان دیہاتوں میں چند بچ جانے والوں سے رابطہ ممکن ہوا۔ انھوں نے اپنے اوپر بیتی مصیبتوں، تناؤ اور ڈر خوف کی داستانیں سنائی ہیں۔
زندہ رہ جانے والوں نے بتایا کہ یہ خوش نصیبی کی بات سمجھتی جانے لگی جب ہمیں باہر کھانا پکانے یا بیت الخلا جانے کی اجازت دی جاتی تھی۔ رفتہ رفتہ سبھی کی صحت جواب دیتی گئی۔
سرویان نے ٹانگوں میں درد کی شکایت کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے بتایا کہ ، ''یہ ہے وہ کرسی جسے ہم ایک ماہ تک باری باری استعمال کرتے رہے''۔جیسے جیسے بیسمنٹ میں لوگ مرتے گئے، ہمسایوں کو اجازت دی گئی کہ وہ وقت بر وقت لاشیں اٹھا کر قریبی قبرستان میں دفن کرتے رہیں۔
ہر بارجب کچھ مانگنے کی ضرورت پیش آتی، تو ہمیں مغلظات، گالیان اور فحش زبانی سے واسطہ پڑتا۔ کبھی کبھار فلیش لائٹ جلا کر دی جاتی جس سے دیواروں پر تحریر دکھائی دینے لگتی تھی۔ دیہاتیوں نے بتایا کہ ہمیں پتا نہیں تھا کہ روسی اتنے بے رحم ہوسکتےہیں۔
سوتلانہ بگوتا نے بتایا کہ ایک روز بظاہر نشے میں دھت ایک روسی فوجی نےگن پوائنٹ پر مجھےساتھ بٹھا کر شراب پینے پر مجبور کیا۔ بگوتا نے کہا کہ ''اس نے میرے حلق پر بندوق رکھ کر بوتل دیتے ہوئے کہا: 'پیو'''۔
جولیا سریپاک نے بتایا کہ اگر کوئی روسی ترانہ سناتا تو فوجی خوش ہوکر انھیں تھوڑی دیر کے لیے اپنے گھر جانے کی اجازت دیتے۔ بقول ان کے ''لیکن، وہ ہمیں زیادہ تر باہر نکلنے نہیں دیتے تھے''۔
اپریل کے آغاز پر روسی فوج گاؤں سے جانے لگی، جو شمالی یوکرین سے پسپائی کے ان کے کسی منصوبے کا حصہ ہوسکتا ہے، جب لڑائی کا محور مشرق کی جانب موڑ دیا گیا۔
گاؤں کے اسکول کی دیوار پر یکم اپریل کو ''آخری دن'' قرار دیا گیا۔ فوجیوں نے بچا کچا گولہ بارود وہیں چھوڑ دیا، روسی بکتر بند گاڑیاں تباہ کرتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔
(خبر کا مواد ایسو سی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)