روس میں مواصلات سے متعلق امور کی نگرانی کرنے والے ادارے ’روس کمندزور‘ نے کہا ہے کہ گوگل کے خلاف روسی قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر اشتہارات کی پابندی سمیت تعزیری اقدامات کیے جارہے ہیں۔
روس کی ’فیڈرل سروس فور سپر وژن ان سفیئر آف کمیونیکیشنز، انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ماس میڈیا‘ (روس کمندزور) نے الزام عائد کیا ہے کہ گوگل کا ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم ’یو ٹیوب‘ یوکرین میں روس کے خصوصی ملٹری آپریشن کے خلاف جعلی خبروں اور تصاویر پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے جن کے ذریعے روسی مسلح افواج کو بے توقیر کیا جارہا ہے۔
ادارے نے خبردار کیا ہے کہ جب تک گوگل کی ملکیت رکھنے والی کمپنی الفابیٹ انک روس کے قوانین پر عمل درآمد یقینی نہیں بناتی اس کے خلاف اقدامات برقرار رہیں گے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق گوگل نے رابطہ کرنے پر روس کے اقدامات سے متعلق کوئی مؤقف ظاہر نہیں کیا ہے۔
گزشتہ ماہ روس نے گوگل پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ اس کا پلیٹ فارم یوٹیوب روسی شہریوں کے لیے خطرات کا باعث بن رہا ہے۔ اس الزام کی بنیاد پر روس نے گوگل سے مبینہ طور پر اپنے شہریوں کے خلاف مواد ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
’روس کمندزور‘ نے گزشتہ ماہ گوگل کی خبریں فراہم کرنے والی ’نیوز ایگریگیٹر‘ سروس کو بھی روس کی فوجی کارروائی سے متعلق جعلی خبروں تک رسائی دینے کا الزام عائد کرکے بند کر دیا تھا۔
گزشتہ ماہ روس کی پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کیا تھا جس کے تحت جان بوجھ کر حکومت یا فوج سے متعلق ’جعلی خبریں‘ پھیلانے پر 15 برس قید کی سزا رکھی گئی ہے۔
یوکرین میں اپنی کارروائیوں سے متعلق معلومات کو اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے غیر ملکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے خلاف روس کے اقدامات میں شدت آتی جا رہی ہے۔
روس نے فیس بک کی ملکیت رکھنے والی کمپنی میٹا کے پلیٹ فارمز پر یوکرین کے شہریوں کو ’ڈیتھ ٹو رشین انویڈرز‘ جیسے پیغامات پوسٹ کرنے کی اجازت دینے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انسٹاگرام پر پابندی عائد کردی تھی۔
مارچ میں روس نے روسی میڈیا پر فیس بک کی عائد کردہ پابندیوں کے جواب میں اس پر بھی ملک میں پابندی عائد کردی تھی۔
رواں برس فروری میں روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا جسے وہ خصوصی عسکری آپریشن کا نام دیتا ہے۔ اس حملے کے بعد یوکرین کی فورسز نے شدید مزاحمت کی ہے جب کہ مغربی ممالک نے روس کو یوکرین سے فوج واپس بلانے پر مجبور کرنے کے لیے کئی پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔
[اس خبر کا مواد خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لیا گیا ہے]